23 دسمبر ، 2015
کراچی......ساگر سہندڑو......صوبہ سندھ کا صحرائے تھر والا علاقہ جہاں ہمیشہ قحط سالی، بھوک ،غربت ، پانی، تعلیم، صحت اور بجلی سمیت جدید مواصلات سے محرومیوںکا شکار رہا ہے وہیں تھر میںآمد و رفت کا مسئلہ بھی شروع سے رہا ہے لیکن پھر مقامی لوگوں نے آمد و رفت کیلئے ریت کےہوائی جہاز کو دریافت کرلیا ۔
مٹھی، ڈیپلو، ننگرپارکر اورچھاچھرو تحصیل پر مشتمل قریباً 21 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر میں آج21ویں صدی میں بھی لوگ جدید ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ہزاروںلوگ تھکا دینے والا سیکڑوں کلو میٹر کا سفر ٹرک نما گاڑی کھیکھڑہ پر کرتے ہیں جسے صحرائے تھر کے لوگ ریت کا ہوائی جہاز کہتے ہیں۔
لکھاری اور افسانہ نگار نصیر کنبھر کے مطابق ٹرک نما فور وہیل کی یہ گاڑیاں جسے تھر کے لوگوں نے چھکڑو میں تبدیل کردیا ہے، دراصل یہ پاکستانی فوج کی پرانی گاڑیاں ہیں جنہیں فوج نے 1956ء کے بعد نیلام کرنا شروع کردیا تھا۔تھر میں پہلی بار عبداللہ میمن نامی فوجی افسر 1956 میں یہ گاڑیاں لائے تھے۔ گاڑیوں کو نئوں کوٹ سے مٹھی کے روٹ پر چلایا گیا بعد میں یہ سلسلہ ضلع بھر میں پھیل گیا۔
چھکڑو جسے عام زبان میں کھیکھڑو کہا جاتا ہے اس کی6 گاڑیوں پر مشتمل دوسری کھیپ سیٹھ بھورہ لال نے 1965ء میں منگوائی جس کے بعد سیٹھ احمد علی میمن نے1971ء سے پہلے ٹرانسپورٹ کمپنی بنا کر کئی گاڑیاں منگوائیں اوریوں فوجیوں کی سابق گاڑیوں کی آخری کھیپ عمر کوٹ کے رئیس امداد رند نے 1976ء میں منگوائی۔
مقامی صحافی ممتاز نہڑیو کے مطابق فوجیوں سے گاڑیاں خریدنے کے بعد ان کی ہیئت تبدیل کرکےانہیںٹرک نما چھکڑے میں تبدیل کردیا گیا۔ ایک کھیکھڑے میں 11 سے 13 سیٹیں ہوتیں ہیں جن میں 5سے 6 سیٹیں خواتین کیلئے جب کہ ڈرائیور کے ساتھ 2 وی آئی پی سیٹیں ہوتی ہیں۔ چھت کے اوپر مویشی اور اناج سمیت دیگر سامان رکھا جاتا ہےاور ایک کھیکھڑہ بروقت تین ٹن کے قریب وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جیپ یا بس وغیرہ کے بجائے کھیکھڑہ نام دیئے جانے کا جواب دیتے ہوئے ممتاز نہڑیو نے بتایا کہ در اصل یہ گاڑیاں ریت کے ٹیلوں پر آہستہ چلتی ہیں جس وجہ سے اسے چھکڑہ کا نام دیا گیا ہے۔ مقامی لوگ ریت پرآہستہ چلنے والی سواریوں کو چھکڑہ بولتے ہیں لیکن بعد میں اسے کھیکھڑہ پکارا جانے لگا۔ صحرائے تھر کا یہ ہوائی جہاز پچاس سال سے زائد عرصے سےتھر کے لوگوں کی غمی و خوشی میں کام آتا آیا ہے۔
حالیہ برسوں میں تھر کے اندر پانچ ہزار کلو میٹر روڈ بن جانے کے بعدکھیکھڑے کے استعمال میں کمی آئی ہےاور ان کی تعداد ہزاروں سے کم ہوکرپانچ سو تک پہنچ چکی ہے ۔کھیکھڑہ جہاں تھر کے لوگوں کیلئے آدھی صدی تک آمد و رفت کا واحد ذریعہ بنا رہا وہیں تھری لوگو ں نے اسے اپنی ثقافت کا حصہ بھی بنائے رکھا۔مائی بھاگی اور اللہ وسائی کے لوک گیتوںکی دھن میں ریت کے ٹیلوں کوپارکرتا کھیکھڑہ آج بھی تھر کی رومانوی سواریوں میں شمار ہوتا ہے۔