25 مئی ، 2016
امریکی اخبار کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے بلوچستان میں ڈرون حملہ کرکے ریڈ لائن عبور کرلی، اب پاکستان سے تعلقات خراب ہوں گے۔
اداریے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے ملا اختر منصور کو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے، مگر اس کے قتل سے افغان طالبان سے بات چیت کا عمل مزید مشکل ہوگیا۔
ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد امریکی اخبار ات میں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف مہم شروع کردی گئی ہے، نیویارک ٹائمز نے اداریئے میں یہ بھی کہا ہے کہ طالبان سربراہ کو قتل کر کے ایسی صورتحال پیدا کی گئی جس سے افغانستان کا محاذ گرم ہو اور امریکی فوجیوں کی تعداد انخلا کے طے شدہ پروگرام کے برعکس بڑھانی پڑ جائے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریئے میں کہا ہے کہ صدراوباما نے ملا اخترمنصور کو نشانہ بنا کر ایک نیا سوال کھڑا کردیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا صدر اوباما افغانستان میں امریکا کے فوجی مشن کو توسیع دینا چاہتے ہیں؟
اگر چہ باراک اوباما نے ملا اختر منصور کی ہلاکت بھی یہ کہا ہے کہ امریکا دوبارہ افغانستان میں روز مرہ کےآپریشنز میں شامل نہیں ہوگا اور صرف یہ یقینی بنائے گا کہ القاعدہ دوبارہ سر نہ اٹھاسکے، مگر طالبان سربراہ کو قتل کرکے کچھ اور ہی پیغام دیا گیا ہے کیونکہ کسی بھی عسکری تنظیم کے سربراہ کو نشانہ بنانے کا مقصد کبھی بھی تشدد کا خاتمہ نہیں ہوتا۔
اس صورتحال میں ملٹری کمانڈرزبھی افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست کریں گے جن کی اس وقت تعداد دس ہزار ہے اور انخلا کے طے شدہ پروگرام کے تحت دسمبر تک ساڑھے 5ہزار رہ جائے گی، صدر اوباما کو کانگریس کے اس دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ وہ افغان جنگ کو تیز ی سے آگے بڑھائیں۔
اداریئے میں بلوچستان ڈرون حملے کو پاکستان کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ امریکا نے یہ کارروائی کر کے ریڈ لائن عبور کرلی ہے جس سے پاکستان سے تعلقات خراب ہوں گے، صدر اوباما نے ملا اخترمنصور کو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا مگر اس کے قتل سے مذاکرات کا عمل مزید مشکل ہوگیا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی ملا اخترمنصور کے امن عمل میں رکاوٹ ہونے کا مؤقف مسترد کردیا تھا۔
چوہدری نثار نے اپنی نیوزکانفرنس میں کہا تھا کہ ملا اخترمنصور امن مذاکرات کا مخالف نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ امریکا سے مذاکرات کیلئے مری نہ پہنچتا۔
نیویارک ٹائمز نے ملا اخترمنصور کے ایران جانے کو ان اطلاعات کی توثیق قرار دیا کہ تہران برسوں سے خفیہ طور پر طالبان کی مدد کر رہا ہے۔