11 جون ، 2012
اسلام آباد … ارسلان افتخار کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے، چیئرمین ایف بی آر نے ملک ریاض کے انکم ٹیکس ریٹرن عدالت میں پیش کردیئے، عدالت نے ایف بی آر کا فراہم کردہ ریکارڈ رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کردیا، دوسری جانب سپریم کورٹ نے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض کو تیسری مرتبہ نوٹس جاری کرتے ہوئے کل عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سب کی بہنیں اور بچیاں ہیں، جس کا جتنا ظرف ہوتا ہے وہ اسی طرح عمل کرتا ہے جس پر ملک ریاض کے وکیل زاہد حسین بخاری نے کہا کہ ملک ریاض نے اپنے منہ سے کبھی کسی کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی جبکہ ارسلان افتخار کا کہنا ہے کہ میرا اور ملک ریاض کا نام ای سی ایل میں ڈالیں اور سلاخوں کے پیچھے بھیجیں۔ سپریم کورٹ کے روم نمبر ایک میں ارسلان افتخار کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عارف خلجی پر مشتمل 2 رکنی بینچ کررہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے ملک ریاض کے انکم ٹیکس ریٹرن عدالت میں پیش کردیئے ، عدالت نے ایف بی آر کا فراہم کردہ ریکارڈ رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کردیا، جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ ملک ریاض نے انکم ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کئے جس پر ممبر لیگل ایف بی آر نے جواب دیا کہ وقت کی کمی کے باعث سارے انکم ٹیکس داخل نہیں کئے جاسکے۔ عدالت نے حکم دیا کہ بحریہ ٹاوٴن اور پارٹنر شپ کے 15 مئی 2012 ء تک کے ٹیکس ریٹرن کل تک داخل کرائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض کو تیسری مرتبہ نوٹس جاری کرتے ہوئے کل عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے، جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ علی ریاض ملک کل نہیں آتے تو عدالت دیکھے گی کہ کیا کرنا ہے۔ اس سے قبل جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ ملک ریاض، بحریہ ٹاوٴن اور ارسلان کو جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم ارسلان افتخار نے جامع جواب داخل کر دیا، دیگر فریقین کے جواب نہیں آئے، ملک ریاض کے وکیل نے 7دن کی مہلت مانگی، جو عدالت نے نوٹ کرلی۔ ارسلان افتخار نے عدالت میں کہا کہ میرا اور ملک ریاض کا نام ای سی ایل میں ڈالیں اور سلاخوں کے پیچھے بھیجیں جس پر جسٹس جواد نے انہیں ٹوکٹے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو اس طرح بولنے کی اجازت نہیں دینگے ۔ حامد میر کے پروگرام میں ملک ریاض سے متعلق ارسلان کی واجدہ کی تصاویر بنانے کے بیان پر زاہد حسین بخاری نے عدالت سے استدعا کی کہ حامد میر کو بلا کر پوچھا جائے کہ ملک ریاض نے کیا کہا، جس پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ ہمیں اب کسی کو نہیں بلانا، ہم سب کی بہنیں اور بچیاں ہیں، جس کا جتنا ظرف ہوتا ہے اسے اسی طرح عمل کرنا ہے۔ زاہد حسین بخاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملک ریاض نے اپنے منہ سے کبھی کسی کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی۔ ارسلان افتخار نے عدالت میں بیان دیا کہ 2011ء میں 45 لاکھ روپے کی رقم اپنے کزن محمد عامر رانا کے ذریعے زید رحمان کے بینک میں جمع کرائی، زید رحمان لندن میں فلیٹ وغیرہ کا بندوبست کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 11-2010ء میں بھی ذاتی اخراجات پر گیا، لندن میں ایک فلیٹ لیا، تفصیلات میرے پاس موجود ہیں، دیانتداری ثابت کرنے کیلئے بتاتا ہوں 2009ء میں بھی اپنے اخراجات پرلندن گیا۔ ایک موقع پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کا نازک کردار ہے، انہیں خود محسوس کرنا چاہئے، اگر میرے بارے میں کوئی بات ہوتو میں ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ارسلان افتخار نے عدالت میں بتایا کہ ملک ریاض، ان کی بیٹی اور داماد سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس جواد نے مزید کہا کہ اخبار والے قابل احترام ہیں، 13 سال سے جج ہوں، جتنے فیصلے دیئے کوئی ایک بھی ٹھیک شائع نہیں ہوا، ہم اخبارات کے تحت نہیں جارہے۔ جسٹس خلجی عارف کا کہنا تھا کہ فیصلے اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں، اس میں اخبار والے بیچارے کیا کریں۔ ارسلان افتخار نے کہا کہ اخبارات میں جو الزامات لگائے ہیں ان سے انکار کرتا ہوں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ کامران خان، حامد میر، شاہین صہبائی نے ارسلان سے متعلق جو کہا وہ سنی سنائی ہے، ملک ریاض کے بارے میں ان کی بات سنی سنائی نہیں، تینوں کا کہنا ہے وہ ملک ریاض سے ملے اور انہیں دستاویزات دکھائی گئی ہیں۔ ارسلان افتخار نے کہا کہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ میں چیف جسٹس کا بیٹا ہوں، چیف جسٹس کا بیٹا ہونے کے ناطے نجی اور سماجی زندگی میں محتاط رہا، میں 32 سال کا نوجوان ہوں اور اپنی روزی روٹی کماتا ہوں، کاروبار سے متعلق باقاعدگی سے ٹیکس جمع کراتا ہوں۔