12 جون ، 2012
اسلام آباد… ارسلان از خود نوٹس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے اور جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے ۔ آج کمرہ عدالت میں ملک ریاض حسین، علی احمد ریاض اور ڈاکٹر ارسلان بھی موجود تھے۔ سماعت کی ابتداء میں یف بی آر نے بحریہ ٹاوٴن سے متعلق اپنا رکارڈ عدالت کو پیش کیا ، جسٹس جواد نے کیس کے قانونی تناظر پوچھے تو ڈاکٹر ارسلان کے وکیل سردار اسحاق نے بتایا کہ پی پی سی کی 120 بی، 163، 116 دفعات نافذ ہوتی ہیں، عدالت نے میڈیا کا ضابطہ اخلاق جاننے کیلئے دو صحافیوں کو بھی بلایا، عدالت کی ہدایت پر زاہد بخاری نے ملک ریاض کا تحریری بیان پڑھا اور مقدمہ کی سماعت پر قانونی اعتراضات بھی پیش کئے، زاہدبخاری نے کہاکہ عدالت میں ارسلان افتخار سے امتیازی سلوک اپنایا گیا، جبکہ ایف بی آر سے بحریہ ٹاوٴن کا تمام رکارڈ منگوایا گیا ہے، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ جو مواد منگوایا ہے اس کی وجہ ہے جس کا عدالتی حکم میں ذکر ہے، الزام لگا کہ کروڑوں روپے دئے گئے، ہم نے ملک ریاض کی مالی حیثیت دیکھنا تھی، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے رکارڈ منگوایاگیا۔ انہوں نے ٹی وی پروگراموں کے حوالے سے ریمارکس دیئے کہ یہ پروگرام نشر ہوئے ،عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے، اسکی اجازت نہیں دے سکتے۔ ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور احترام کا سوال ہی نہیں ہے، ارسلان افتخار عدلیہ اور چیف جسٹس کی بدنامی کا باعث بنا، اس نے ملک ریاض کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کئے۔ عدالت نے پوچھا کہ ارسلان نے کیا الزامات عائد کئے، جس پر ملک ریاض کو روسٹروم پر بلوالیا گیا۔ عدالت نے پوچھا کہ مقدمات ختم کرنے کی یقین دہانی کسے کرائی گئی تھی، زاہدبخاری نے کہاکہ یہ یقین دہانی احمد خلیل اور سلمان احمد کو کرائی گئی تھی، اس پر جسٹس جواد خواجہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یقین دہانی احمد خلیل اور سلمان کو کرائی لیکن دھوکا ملک ریاض کو دیا گیا۔ سماعت کے دوران عدالت کے سامنے بیان میں موجود غلطی بی سامنے آئی جب بیان میں لکھاگیاتھا کہ اس معاملے میں صدر،وزیراعظم، کوئی سیاسی شخصیت یا جماعت اور ایجنسی ملوث ہیں اور جب زاہدبخاری یہ پڑھ گئے تو کمرہ عدالت میں قہقہہ بلند ہوا ، اس پر زاہدبخاری نے پین سے اس پر درستگی کردی۔