16 اکتوبر ، 2016
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام منصوبوں میں 425 ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں ۔ اربوں روپے کے منصوبے بغیر ٹینڈر دینےاور ایسی کمپنیوںکو کام ایوارڈ کرنے کا انکشاف ہوا، جنہوں نے نیلامی میں حصہ تک نہ لیا۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے ٹھیکوں سے قومی خزانے کو 205 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سال 16-2015 کی آڈٹ رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام منصوبوں میں425 ارب روپے کی بے قاعدگیوں ہوئیں ۔
لاہور اسلام آباد موٹر وے کی مرمت تزئین اور ٹال ٹیکس وصول کرنے کا کام ان 3کمپنیوں کے جوائنٹ وینچر کو دیا گیا جنہوں نے نیلامی کی دستاویزات تک حاصل نہیں کی تھیں۔
ٹول ٹیکس لینے کا ٹھیکا دینے سے پہلے کمرشل اسٹڈی،ریونیو اسیسمنٹ اور تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن کی زحمت تک نہ کی گئی۔ ان بے قاعدگیوں سے قومی خزانے کو 242ارب 27 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
سپر ہائی وے کو 4سے 6رویہ کرنے اور اس پر ریلوے اوور ہیڈ برج بنانے کے منصوبوں کے ٹھیکے قواعد کو نظر انداز کر کے دیے گئے،ملکی خزانے کو 119 ارب 93 کروڑ روپے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
خانیوال سے ملتان موٹر وے کا 12 ارب 93 کروڑ روپے کا توسیعی منصوبہ ایسی فرم کو دیا گیا جو پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ تھی اور نہ ایسے کام کا تجربہ تھا ۔
حسن ابدال حویلیاں ایکسپریس وے کے 14 ارب 15 کروڑ روپے کے ٹھیکے 2 ایسے جوائنٹ وینچرز کو دیے گئے جو چینی کمپنیوں نے صرف کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے بنائے تھے اور درکار قواعد پر پورا نہیں اترتے تھے۔
جری کس سے سرائے صالح سڑک کا 6 ارب 77 کروڑ روپے کاٹھیکا کیٹیگری بی کی ایسی فرم کودیا گیا جو 3ارب روپے سے زیادہ مالیت کا کام کرنے کی اہل ہی نہ تھی۔
پشاور ناردرن بائی پاس کا 4 ارب 40 کروڑ کا ٹھیکا اس کمپنی کو دیا گیا جسے تکنیکی جانچ پڑتال کے دوران نا اہل قراردے دیا گیا تھا۔
ٹول پلازوں کے آپریشن اینڈ مینجمنٹ کا 1 ارب 34 کروڑ کا ٹھیکا نا اہل قرار دی گئی فرم کو دے دیاگیا۔
آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ منصوبوں میں بےقاعدگیوں کی نشاندہی کے باوجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے کوئی جواب نہیں دیا،محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی اعتراضات نمٹانے کی کارروائی نہیں کی گئی۔