30 نومبر ، 2024
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں، دانش یہودیوں کا ایک گروپ فلسطین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اُن کے لیے انصاف اور امن کےلیے احتجاج کررہا ہے۔
سیاہ شرٹس پہنے یہ افراد، اپنے آپ کو “Jøder for retfærdig fred”کہلاتے ہیں، جس کا مطلب ہے منصفانہ امن کے حامی یہودی۔ ڈنمارک میں موجود کئی مظاہرین کیلئے اس گروپ کی موجودگی ایک احساس شمولیت پیدا کرتی ہے اور اس سوچ کو دہراتی ہے کہ فلسطین کیساتھ یکجہتی کا مطلب ہرگز یہودی مخالف ہونا نہیں ہے، اس گروہ کا مقصد فلسطینیوں کیساتھ یکجہتی کو فروغ دیتے ہوئے یہودی شناخت کو Zionism یعنی صیہونیت کی حدود سے بڑھ کر اسے نئے معنی دینا ہے۔
80 سے زائد فعال کارکنان پر مشتمل یہ گروپ ڈنمارک کی یہودی آبادی کے ایک فیصد حصے کی ترجمانی کرتا ہے جہاں اس وقت 6 سے 7ہزار یہودی مقیم ہیں۔ اس گروپ کا نظریہ Zionism کیخلاف ہے، اور یہ سمجھتے ہیں کہ Zionism ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
احتجاج، بھوک ہڑتالوں اور فلم اسکریننگز کے ذریعے، یہ گروپ اب کوپن ہیگن کے کیفیز اور گیلریوں میں فلسطینیوں کیلئے انصاف کی آواز اٹھانے والی ایک نمایاں آواز بن گیا ہے۔
اس تنظیم کی اہم کارکن، جوئے کمر کا کہنا ہے کہ، یہ آرگنائزیشن دراصل ڈنمارک میں اُن یہودیوں کیلئے ایک سپورٹ گروپ کے طور پر شروع ہوئی تھی جو اپنے Zionist مخالف نظریات کی وجہ سے خود کو علیحدہ اور سب سے کٹا ہوا سمجھتے تھے۔ ہمارا مقصد یہودیوں کی فلسطین کیساتھ یکجہتی کی تحریک کو اُجاگر کرتے ہوئے دوسروں کو یہ سمجھانا ہے کہ فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے ڈنمارک کے یہ یہودی کسی بھی یہودی مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ ہم یہودی ہیں، اور ہم بھی اسرائیل کے اقدامات پر شدید غم اور غصہ رکھتے ہیں۔
ڈنمارک کے شہر آرہس سے تعلق رکھنے والی صحافی، ماری لوئیز جارسن، ڈنمارک میں Zionist مخالف، یہودی سرگرمیوں کے پروان کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔
ماری لوئیز جارسن کے مطابق، اس گروپ نے فلسطین سے یکجہتی کی تحریک کو بے حد تقویت فراہم کی ہے اور اس بیانیےکو براہ راست چیلنج کیا ہے جو فلسطین کی حمایت کو یہودی مخالف نظریے یعنی anti-Semitism سے جوڑتا ہے۔
ایک طرف جہاں ڈنمارک کے ایک فیصد یہودی آبادی کی فلسطین کے حق میں چلائی جانے والی اس تنظیم کو دیگر یہودیوں کی جانب سے حمایت اور پذیرائی مل رہی ہے، وہیں ڈنمارک میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کی جانب سے اسرائیل کے غزہ میں عسکری کارروائی پر مؤقف کےحوالے سے بھی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
Jøder for retfærdig fred ڈنمارک کے آرتھوڈاکس عبادت گاہ کی اسرائیل کی حمایت میں لی جانے والی پوزیشن پر کھل کر تنقید کرتی ہے، اور ایسا کرتے ہوئے یہ تنظیم اپنے آپ کو یہودی اجتماع میں اپنے نظریاتی فرق کی وجہ سے سب سے اکیلا اور الگ پاتی ہے۔
Jøder for retfærdig fred کے ایک اور کارکن، ائلدن رینک نے یہودی کمیونٹی میں اس ٹینشن کو اُجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ، کوپن ہیگن میں ایک آرتھوڈاکس عبادت گاہ خود کوری برینڈ کرتے ہوئے ڈنمارک میں یہودی آبادی کی ترجمانی کا دعویٰ کررہی ہے لیکن نہ تو سارے یہودی آرتھوڈاکس ہیں اور نہ ہی وہ اُس عبادت گاہ کےسیاسی مؤقف کی حمایت کرتے ہیں، یہ عبادت گاہ یہودیوں کے اہم مذہبی دن، شبت کی دٓعاؤں میں اسرائیلی فوجIDF کیلئے دُعا کرتی ہے جو کہ ایک سیاسی اسٹیٹمنٹ ہے باقی یہودی عبادت گاہوں کی بھی سیاسی آراء ہوسکتی ہیں لیکن وہ ڈنمارک میں موجود تمام یہودیوں کی ترجمانی کا دعویٰ نہیں کرتی ہیں۔
جارسن کے مطابق، ڈنمارک میں موجود تینوں اہم یہودی عبادت گاہوں کا جھکاؤ یا تو Zionist نظریے کی طرف ہے یا وہ اُس کی براہ راست حمایت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے Jøder for retfærdig fred کے کارکنان اپنی ہی مذہبی کمیونٹی میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں لیکن ایک اقلیت ہونے کے باوجود Jøder for retfærdig fredکی کوششیں قدامت پرست روایت کو چیلنج کرتے ہوئے ڈنمارک میں دن بدن مزید نمایاں ہورہی ہیں۔
Zionist مخالف گروپ کی جانب سے ایک اوپن لیٹر کےجواب میں، ڈنمارک میں کی ایک عبادت گاہ نے مشورہ دیا کہ وہ کسی یہودی عبادت گاہ کا حصہ بن کر، کمیونٹی کے اندر سے تبدیلی کا آغاز کریں، البتہ Jøder for retfærdig fred نے اس پیش رفت کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ اُن کے اور اسرائیل کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
فرینک کا کہنا ہے کہ کئی طرح سے ہم اپنے آپ کو روحانی طور پر بے گھر محسوس کرتے ہیں، اُنہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے جو ہماری ترجمانی کرسکے ہم اپنے سیاسی نظریے کی وجہ سے دیگر یہودی فورمز پر خود کو الگ محسوس کرتے ہیں، ڈنمارک کی یہودی کمیونٹی کی اندرونی سیاست اور تناؤ کے باوجود Jøder for retfærdig fred اپنی سرگرمیاں نہ صرف جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ وہ اسے فروغ بھی دے رہے ہیں۔
حال ہی میں Jøder for retfærdig fred نے دیگر یورپی ممالک میں موجود تنظیموں کو یکجا کرکے یورپی یہودی برائے فلسطین کے نام سے اتحاد قائم کیا ہے جس میں پورے یورپ سے 19 تنظیمیں شامل ہیں اس اتحاد کا مقصد خود کو یورپی یونین کی سطح پر پہلا Zionist مخالف انٹرسٹ گروپ کے طور پر متعارف کروانا ہے جس کا مقصد یہودی مذہب کو Zionism کے سیاسی نظریے سے علیحدہ کرنا ہے۔
کمر کے مطابق، ہم مختلف یہودی گروپس کا ایک اتحاد ہیں اور ہم یورپی یونین میں لابی کررہے ہیں ہمارا نیٹ ورک نیا ہے اور ابھی ہم اپنے مقاصد اور ان کو حاصل کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بنیاد رکھ رہے ہیں، غزہ میں جاری اسرائیلی جارہیت کے تناظر میں Jøder for retfærdig fred کا زور اس بات پر ہے کہ وہ یہودی مذہب کو Zionismکے سیاسی نظریے سے علیحدہ رکھاجائے۔
Jøder for retfærdig fredکے مطابق،Zionism کا نظریہ جان بوجھ کراپنے آپ کویہودی مذہب سے یکجا کرکےپیش کرتا ہے تاکہ وہ تنقید سے بچ سکے، آن لائن انٹرویو کے دوران فرینک نے بتایا کہ Zionist چاہتے ہیں کہ لوگ یہودی مذہب کو Zionism کیساتھ منسلک کریں تاکہ Zionismکی مخالفت تقریبا ناممکن ہوجائے، یہودی مذہب Zionismکے نظریے سے کافی پہلے وجود میں آیا تھا۔
Zionism بطور ایک سیٹلر نظریے کے عدم مساوات اور تشدد کو فروغ دیتا ہے، Zionism نظریے کے مطابق اسرائیلی یہودی خطے میں باقی سب سے متعبر یا اوپر ہیں، لبنان جیسے ممالک بھی اسرائیل کے اس توسیع پسند مقاصد سے محفوظ نہیں ہیں۔
یہ گروپ یہودی کمیونٹی میں پائی جانے والی اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کررہا ہے کہ Zionism مخالف ہونے کا مطلب ہر گزر یہ نہیں ہے کہ آپ یہودیوں کے مخالف یعنی Anti-Semiticہیں۔Jøder for retfærdig fred کی چلائی جانے والی تحریک فلسطین کیساتھ یکجہتی کی مہم کو تقویت فراہم کررہی ہےلیکن کچھ ممبران کو اپنے اہلخانہ اور کمیونٹی کی جانب سے مخالفت کی صورت میں، اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔
کمر کا کہنا ہے کہ ہم میں سے کئی افراد کے اہلخانہ ان یہودی عبادت گاہوں کے ممبر ہیں، غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے ہماری اپنی کمیونٹی میں شدید دراڑیں پیدا کردی ہیں ہمارے نظریات کی وجہ سے ہمارے اہلخانہ کو بھی بھاری تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ صرف ایک نظریے کی دوسرے نظریے کیخلاف لڑائی نہیں ہے، بلکہ نظریوں کی یہ لڑائی خاندانوں کو بھی اُجاڑ رہی ہے لیکن اندرونی اختلافات کے باوجودJøder for retfærdig fred اپنے عزائم پر قائم ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کی ان کوششوں سے ڈینمارک کی یہودی عبادت گاہوں کے مؤقف میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آتی ہے یا نہیں.
اپنی آواز میں جھلکنے والے جذبات پر قابو پاتے ہوئے فرینک کا کہنا ہے کہ یہودیت کئی ہزار سالوں سے زندہ ہے. جبکہZionism نسبتاً ایک نیا نظریہ ہے جس کی تاریخ صرف 70 80 سال پرانی ہے، ہم یہاں تب بھی موجود ہوں گے جب سیاسی نظریہ،ریاست یا یہ پروجیکٹ ختم ہوچکا ہوگاZionism آج کے دور میں بھلے بظاہر یہودی نظریے کی عکاسی کرتا ہو لیکن اگلی صدی آپ ایک مختلف مستقبل دیکھیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔