بلاگ
23 نومبر ، 2016

تنقید ،سلیکشن اور شکست!!!

تنقید ،سلیکشن اور شکست!!!

آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں دوسرے نمبر پر موجود پاکستان ٹیم سال 2016 کے گیارہویں مہینے میں رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈیز سے شارجہ میں 5وکٹ سے اور ساتویں نمبر پر موجود نیوزی لینڈ سے کرائسٹ چرچ میں 8وکٹ کی شکست کا زخم سہہ چکی ہے۔

ٹیم پاکستا ن کی مسلسل دو ٹیسٹ میں ناکامیوں کے بعد تبصرے شروع ہو چکے ہیں ،قومی سلیکشن کمیٹی پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں ، شاید یہ تو شروعات ہیں ، اگر اب بھی سوچ نہ تبدیل کی گئی تو آسٹریلیا کے بعد شائد بہت سے کھلاڑیوں کو ضرور تبدیل کرنا پڑ جائے گا۔ آسٹریلیا نے تو جنوبی افریقا کے خلاف پرتھ اور ہوبارٹ میں ناکامیوں کے بعد چیف سلیکٹر راڈنی مارش کے استعفے کے بعد ٹریور ہونز کی خدمات حاصل کر لی ہیں ، جنھوں نے منصب سنبھالتے ہی تیسرے ٹیسٹ کے لئے 6کھلاڑیوں کو ڈراپ کر دیا ہے، البتہ پاکستان کرکٹ کے انداز نرالے ہیں ۔ یہاں وہ سابق کرکٹرز جو تنقید کر رہے تھے، اب پی سی بی سے معاہدہ ہونے کے بعد اپنی تنقید کی دکان بند کر کے نوٹ گن رہے ہیں اور پی سی بی کے اندر جو جیسا چل رہا تھا اسی طرح رواں دواں ہے۔

سترسال کے محمد الیاس جنھوں نے 10ٹیسٹ کھیلے، اب شائد پی سی بی پر نہ کوئی تنقید کریں گے نہ ہی کوئی نیا کیس لے کر پی سی بی کے خلاف عدالت جائیں گے کیوں کہ انھیں کلب کرکٹ کے خانے میں نوکری سے نوازا جا چکا ہے، ایک جانب شہریار خان زائدالعمر افراد کو پی سی بی سے نکالنے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور دوسری جانب 6 ٹیسٹ اور3 ون ڈے کھیلنے والے شفیق احمد عرف پاپا کی نوکری ہے جو 67برس کے ہو نے کے باوجود ابھی تک جاری ہے۔

دورہ نیوزی لینڈ میں ویمنز کرکٹ ٹیم 5ون ڈے اور ایک ٹی20میں شکست کے گڑھے میں منہ کے بل جا گری، البتہ کپتان ثناء میر اور مینجر عائشہ اشعر اس بار بھی شاید گھر نہ جائیں۔ ویمنز کرکٹ میں یہ دو خواتین ہٹیں گی تب ہی بہتری کی امید پیدا ہوگی۔ اب دیکھنا ہے کہ ٹور رپورٹ میں اس بار مینجر عائشہ اشعر کوچ باسط علی کے بارے میں کیا لکھتی ہیں ، ورنہ ماضی میں دورہ آئر لینڈ کے بعد عائشہ اشعر نے باسط علی کے بارے میں جو کچھ رپورٹ میں لکھا تھا، آج بھی شائد وہ لڑکیوں اور میڈیا کو یاد ہے۔

ویمنز ٹیم کی سلیکشن پر اس بار بھی میڈیا نے بڑا شور مچایا ، البتہ پسند نا پسند کا کھیل ویمنز کرکٹ میں چل رہا تھا اور چل رہا ہے، عین اسی طرح جیسے ثناء میر بغیر کارکردگی اور نتائج کے ون ڈے ٹیم کی قیادت سے منسلک ہیں ، سلیکشن کا ویمنز کرکٹ میں معیار ویسے بہتر بھی کس طرح ہو سکتا ہے ،جب پاکستان کے لئے 40سال پہلے ایک ٹیسٹ کھیلنے والے فرخ زمان 60 سال کی عمر میں اس منصب پر براجمان ہو ں گے۔ نیوزی لینڈ میں ویمنز کرکٹ ٹیم کی طرح مردوں کی ٹیم کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی دکھائی نہیں دے رہی۔

کرائسٹ چرچ ٹیسٹ میں شکست کے بعد ایک بار پھر سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے، یہی نہیں انضمام الحق کی سربراہی میں کام کر نے والی سلیکشن کمیٹی کے اراکین توصیف احمد ، وجاہت اللہ واسطی اور وسیم حیدر گورننگ بورڈ کی تنقید کے بعد قائد اعظم ٹرافی میں سپرایٹ مرحلے کے میچ دیکھنے پر مجبور ہیں ، جب کہ نیوزی لینڈ میں پہلے ٹیسٹ میں سست رفتار بیٹنگ کے بعد اب سلیکشن کمیٹی کو لگتا ہے کہ انہوں نے 27سال کے شرجیل خان کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کر کے دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے، جب کہ ٹیم مینجمنٹ کی سوچ اس کے بلکل برعکس دکھائی دے رہی ہے ،20ون ڈے اور 15ٹی20کھیلنے والے بھاری جسامت کے بائیں ہاتھ کے بیٹس مین کو ٹیم مینجمنٹ دورہ نیوزی لینڈ پر خوب دوڑیں لگوا رہی ہے۔

شرجیل سے کہا جا رہا ہے کہ اپنا وزن کم کرو، اب بیچارے جارح مزاج بیٹس مین کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ ٹیم کے ہمراہ کھیلنے آیا ہے یا پھر اسے ٹریننگ کے لئے اتنی دور بھیجا گیا ہے ۔ ٹریننگ اور بھاگ بھاگ کر نڈھال ہو نے والے شرجیل کو کرائسٹ چرچ میں پہلے ٹیسٹ کے پانچویں دن بیٹنگ پریکٹس یوں کروائی گئی کہ میچ چوتھے دن ختم ہو گیا تھا اور مصباح الحق اپنے سسر کے انتقال کے سبب ٹیم چھوڑ کر وطن روانہ ہو چکے تھے، ایسے میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں 81کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیلنے والے شرجیل کو کھلانے کی صدائیں جو بلند ہو رہی تھیں لیکن شرجیل کا ہیملٹن میں ٹیسٹ ڈیبیو مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔

نیوزی لینڈ کے جس بولنگ اٹیک کے سامنے پاکستان کے تجربے کار بیٹس مین لڑ کھڑا گئے ہوں ، وہاں شرجیل کا امتحان آسان ہرگز نہیں ہوگا۔ ون ڈے اور ٹی 20کے مزاج کیساتھ ٹیسٹ میں شرجیل پاکستان کا 224واں ٹیسٹ کرکٹر بھلے ہی بن جائے ، البتہ سلیکشن کمیٹی کا یہ فیصلہ افتخار احمد کو ٹیسٹ کرکٹر بنانے جیسا دکھائی دے رہا ہے، جو اوول ٹیسٹ میں اس سال ڈیبیو کرنے کے بعد اب ٹیسٹ اسکواڈ سے بھی باہر ہے ۔

قومی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق انگلینڈ اور دبئی کے بعد اب آسٹریلیا جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ، اندر کی اطلاعات یہ ہیں کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان کو چیف سلیکٹر کے غیر ملکی دوروں پر تحفظات ہیں اور ممکن ہے کہ شہریار خان جو خود ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ دیکھنے کے لئے برسبین نہ جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں ، مستقبل میں چیف سلیکٹر کو غیر ملکی دوروں کی اجازت نہ دیں ، اور یہاں ٹیم کے کوچ مکی آرتھر کے کردار کو نظر انداز نہیں کر نا چاہیے جنھوں نے دورہ انگلینڈ کے بعد بحیثیت مینجر تجربے کار انتخاب عالم اور اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کی چھٹی کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کوچ مکی آرتھر چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی سے ٹیم کے مسائل پر کھل کر تباد لہ خیال کرتے ہیں ، ٹیم سلیکشن پر کوچ مکی آرتھر کو خاصے تحفظات ہیں ،جس کا وہ کھل کر اظہار خیال کرنے سے گزیز کرتے رہے ہیں ، بالخصوص دورہ انگلینڈ میں محمد حفیظ کے متبادل کے طور پر جا نے والے دراز قد فاسٹ بولر محمد عرفان کے ایک میچ میں ان فٹ ہو جانے پر کوچ سلیکشن کمیٹی پر خاصے برہم تھے، جب کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اس بارے میں دبئی میں گفتگو کرتے ہو ئے مجھے کہا تھا کہ ہم نے عرفان کو انگلینڈ بھیجنے سے قبل اس کی فٹنس کو مکمل طور پر ٹیسٹ کیا تھا، عرفان باقاعدہ لاہور میں 50اوورز کا میچ کھیل کر گیا تھا اور چیف سلیکٹر کی اس بات میں صداقت بھی تھی۔

گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ کراچی میں واقع اسٹیٹ بینک اسپورٹس کمپلیکس کرکٹ گرائونڈ کو پی سی بی فرسٹ کلاس کرکٹ کے دھارے میں اس وقت شامل کیا گیا جب یہاں حبیب بینک اور نینشل بینک کی ٹیمیں سپر ایٹ مرحلے کا میچ کھیلیں، ٹیسٹ سینٹر نیشنل اسٹیڈیم کراچی، ڈیفنس اسٹیڈیم ، یو بی ایل اور نیشنل بینک اسپورٹس کمپلیکس کیساتھ اس شہر میں یہ فرسٹ کلاس کی میزبانی کرنے والا پانچواں سینٹر منظر عام پر آچکا ہے، لیکن افسوس جس شہر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کی میزبانی کے لئے پانچ سینٹرز موجود ہوں ،اس ریجن کی ٹیم کراچی بلیوز قائدا عظم ٹرافی میں کوئی پوائنٹ نہ لینے کے سبب اگلے سال کھیلتی دکھائی نہیں دے گی۔

اس بارے میں کراچی ریجن کے سربراہ پروفیسر اعجاز فاروقی نے گورننگ بورڈ کے اجلاس میں چئیر مین پی سی بی سے بات بھی کی، لیکن مثبت جواب سامنے نہیں آیا، کراچی نے پاکستان کرکٹ کو ؓبڑے بڑے نام دیے، اور ساتھ ہی اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اس شہر میں کرکٹ کے لئے بے لوث کام کر نے والے بھی سرگرم ہیں ،ان میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے روح رواں ندیم عمر کسی تعارف کے محتاج نہیں ، البتہ ندیم عمر جن کیساتھ کئی انٹرنینشل اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹرز شہر کراچی میں کرکٹ کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں ، ان کی موجودگی میں اس شہر کی کرکٹ کا اکھڑتا ہوا سانس کئی سوال اٹھا رہا ہے؟