09 دسمبر ، 2016
افضل ندیم ڈوگر...سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد خان کے خلاف 5 سنگین الزامات پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حکم پر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
اس حوالے سے میڈیا ٹاک میں راؤ انوار کی تنقید کا نشانہ بننے والے ڈی آئی جی کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا ہے۔
گریڈ 18 کے پولیس افسر انوار احمد خان 19 ستمبر 2016ء کو ایم کیو ایم کے ایم پی اے خواجہ اظہارالحسن کے گھر پر 2 گھنٹے کے دوران دو چھاپے مارنے اور انہیں تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کرنے پر معطل کیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر سیاسی سرپرستی رکھنے والے اس پولیس افسر کو ٹھیک دو ماہ بعد 19 نومبر 2016 ءکو اچانک بحال کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کے صوابدیدی اختیار کے ذریعے اس افسر کی بحالی پر سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران سخت ناراض تھے، اس بات کا شکوہ اعلیٰ سیاسی قیادت سے بھی کیا گیا،جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے راؤ انوار کے خلاف چارج شیٹ کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا۔
چیف منسٹر کمپلینٹ اتھارٹی نے 28 نومبر 2016ء کو ڈی آئی جی سی آئی اے جمیل احمد کو تحقیقاتی افسر مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
ملیر میں تعیناتی کے دوران زمینوں پر قبضے، ریتی بجری کے غیر قانونی کاروبار کی سرپرستی، اپنے ماتحت افسران سے غیر معمولی بدسلوکی، روزنامچے میں جعلسازی سے اظہار الحسن کے گھر پر چھاپے کی پیشگی اطلاعی رپورٹ درج کرنے اور پابندی کے باوجود میڈیا کانفرنس کرنے کے الزامات ہیں۔
راؤ انوار نے اپنی میڈیا ٹاک میں ڈی آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد پر تنقید کی تھی، اب وہی پولیس افسر تحقیقات میں راؤ انوار کی ملازمت کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔