11 جنوری ، 2017
16 اپریل 1948ء کی صبح اخبارات میں ایک حادثے کی خبر شائع ہوئی: ’’امریکی فضائی کمپنی کا ایک طیارہ آئرلینڈ میں لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا اور مسافروں میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ سکا۔‘‘
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس طیارے کے 29 بدقسمت مسافروں میں ایک پاکستانی خاتون بھی تھیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں نہایت نمایاں کام کیا، یہ خاتون پاکستان کو امریکا میں متعارف کروانے کی مہم پر پاکستان سے نیویارک جا رہی تھیں، نیویارک میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں گواہی دینی تھی کہ ’’بھارتی فوج نے بارہ مولہ (کشمیر) کے جینرس اینڈ میری کانونٹ ہائی اسکول پر اندھا دھند بمباری کی تھی اور اس کی مکمل تباہی سے قبل مرحومہ ممتاز اس میں مقیم بارہ ننوں (راہباہوں) کو زندہ بچا کر ایک ٹرک میں راولپنڈی لائی تھیں۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے مشہور ناول ’’ہارٹ ڈیوائیڈڈ‘‘ کی اشاعت بھی امریکا میں کروانی تھی۔
ممتاز شاہنواز سر میاں محمد شفیع کی نواسی اور بیگم جہاں آراء شاہنواز کی بیٹی تھیں جنہوں نے اپنی زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
ان کی والدہ بیگم شاہنواز اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتی ہیں:
’’اس کے آخری الفاظ جو میرے لیے تھے……میں پاکستان اس وقت واپس آؤں گی جب کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا،میری خواہش ہے کہ میں وہاں اپنا گھر بناؤں اور اس میں رہوں، امی جان! یاد رکھئے کہ نئی ریاست کو ایک مسلمان ریاست ہونا چاہئے اور آپ کبھی اس کے لیے کام کرنا نہ بھولئے گا۔‘‘
ان کی پیدائش سے متعلق بیگم شاہنواز اپنی کتاب ’’فادر اینڈ ڈاٹر‘‘ میں لکھتی ہیں کہ :
’’میرا پہلا بچہ ایک لڑکی تھی جو 14 اکتوبر 1912ء کو پیدا ہوئی، جب میں نے اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں میں لیااور اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں تو ان میں‘ میں نے اپنا عکس دیکھا۔‘‘
ممتاز نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور میں اور اعلیٰ تعلیم دہلی کے ایک کالج سے حاصل کی، 18سال کی عمر سے وفات تک لاہور، کلکتہ، دہلی، بمبئی اور لندن کی ادبی محافل میں شرکت کی اور اپنی بے شمار نظمیں سنائیں، 1930ء میں برطانیہ نے ہندوستان کے جن اہم رہنماؤں کو تاریخی گول میز کانفرنس کیلئے بلایا، ان میں سر میاں محمد شفیع اور بیگم جہاں آراء شاہنواز بھی شامل تھے،ممتاز بھی ان کے ساتھ لندن گئیں۔
ان کی تحریر اور تقریر میں استدلال، جوش اور قومی جذبے کا جادو تھا، لندن میں جب گول میز کانفرنس ہو رہی تھی تو ممتاز جگہ جگہ انگریز سامراج کے خلاف تقریریں کرتی رہیں، ان کی لندن میں تقاریر کا موضوع ’’ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کو ختم ہونا ہے اور نہ ہی ان کی حکومت اب زیادہ دیر قائم رہ سکتی ہے، انگریزوں کو اپنا انجام سمجھ لینا چاہئے اور باعزت طریقے سے ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے۔‘‘ وہ جارج برنارڈشا اور ایچ جی ویلز سے بھی ملیں اور ان کو اپنی نظمیں سنائیں۔
اس دور میں انگریز حکومت کے خلاف تقریر کرنا بہت بڑی جسارت بلکہ ’’جرم‘‘ سمجھا جاتا تھا، ممتاز نے یہ جسارت انگریز کے گھر میں بیٹھ کر کی، برطانوی مفکر اور ادیب جارج برنارڈشا نے ممتاز سے کہا کہ:
’’تم بلا کی ذہین لڑکی ہو‘ تمہارا انجام اچھا نہ ہو گا۔‘‘
شروع شروع میں تازی (ممتاز) بھی نیشنلسٹ سوچ سے متاثر تھی لیکن اس کے خیالات میں اسلام اور عورت کی عظمت کی جھلک غالب تھی، ایک مرتبہ تازی نے انتہائی دکھ سے کہا:
”اس ملک پر حکومت کرنے والی قوم کی بیٹیاں آج بازار میں بیٹھی ہیں، ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا ہے، اس ملک کو سچا مذہب اور کلچر مسلمانوں نے دیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن جانا اور ہمیں بے وقار کرنے کی کوشش کی کیونکہ عیسائیت کے فروغ کو صرف اسلام روک سکتا تھا، ہندو مت میں اتنی طاقت نہ تھی، یہ تو رسومات کا مجموعہ ہے اور اسلام ایک نظریہ اور عقیدہ ہے۔‘‘
جہاں آراء شاہنواز اپنی سوانح حیات ’’باپ اور بیٹی‘‘ میں لکھتی ہیں:
’’میری بیٹی ممتاز نیشنلسٹ خیال سے متاثر تھی اور کانگریس کے نظریات کی حامی تھی، نیو دہلی میں ایک ڈنر کے دوران میں نے قائداعظمؒ کے سامنے کہا کہ میں اس دن مسلم لیگ کو ایک ہزار روپیہ دوں گی جس دن ممتاز اس میں شامل ہو گی۔‘‘
مسٹر جناح نے فوراً کہا کہ ’’وہ دو آنے جو تازی مسلم لیگ کی ممبرشپ فیس کے طور پر دے گی جو اس کے مسلم لیگ سے مخلص اور گہرے عقیدے کی بناء پر ہو گا، کسی بھی چندے سے زیادہ قیمتی ہو گا۔‘‘
1945ء میں ممتاز بیگم جہاں آراء شاہنواز کے ساتھ لاہور آگئی، یہاں میاں بشیر احمد بیرسٹر ایٹ لاء کی بیگم گیتی آراء نے خواتین کی نیشنل گارڈ بنائی تھی، ممتاز اور رفعت نے اسے منظم کیا اور اس میں جان ڈالی، بے شمار مسلمان لڑکیاں تحریک پاکستان کے میدان عمل میں نکل آئی تھیں، ان لڑکیوں کو باہر لانے کیلئے ممتاز نے بہت کام کیا، وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ قوم کی آدھی طاقت چار دیواری میں قید ہے۔
تحریک پاکستان کی یہ عظیم مجاہدہ 15 اپریل 1948ء کو 36برس کی عمر میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئیں، (انا للہ وانا الیہ راجعون) جس پاکستان کیلئے انہوں نے شب و روز جدوجہد کی اس وطن کی خاک اس کے جسد خاکی کو نصیب نہ ہو سکی۔