01 فروری ، 2012
اسلام آباد… وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کو بتایاہے کہ انکے موکل نے بدنیتی سے نہیں بلکہ قواعد و ضوابط کے مطابق این آر آو فیصلے پر ایڈوائس لیکر، سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا، خط لکھنے میں حرج نہیں لیکن نہ لکھنا بھی غلط نہیں ہے، عدالت نے کہاہے کہ عملدرآمد کا فیصلہ 17 ججوں نے دیا جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی خصوصی بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس اور سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے معاملے پر وزیراعظم کے توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کی، جسٹس ناصرالملک نے وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کو کہاکہ صدر کو استثنیٰ ثابت کردیں تو عدالت مزید کارروائی نہیں کرے گی، اعتزاز احسن نے کہاکہ وزیراعظم ایڈوائس لیتے ہیں،جو انہیں وزیر قانون اور سیکریٹری قانون نے دی، وزیراعظم دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، جسٹس ناصرالملک نے کہاکہ وزیراعظم نے یہاں آکر کہاکہ خط نہ لکھنے کا فیصلہ تو انکا اپنا تھا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم نے کہاکہ اس ایشو پر جیل جانا پڑا تو جاوٴں گا، خط لکھنے کی بجائے جیل جانے کا کہنا کیا حکم عدولی نہیں ہے، وہ ماتحت آفیسرز کے ایڈوائس پر تو عمل کرتے لیکن عدالت کے احکامات پر نہیں، اعتزاز احسن نے کہاکہ عملدرآمد کیلئے معاملہ ہائی کورٹ جانا چاہیئے تھا ،جسٹس ناصرالملک نے کہاکہ آرٹیکل 204 کے تحت عدالت کو اختیار حکم پر عمل نہ کرنے والے خلاف کارروائی کرے، جسٹس آصف کھوسہ نے اعتزاز احسن کو کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہائی کورٹ عمل کرائے، آپ کے موکل خط نہیں لکھیں گے، کیا یہ آپ کی نیک نیتی ہے، سترہ ججوں نے بہت واضح حکم دیا، کیا آپ ایک اور حکم چاہتے ہیں، جسٹس اطہر سعید نے کہاکہ رولز آف بزنس کا غلط استعمال ہو تو پھر کون ذمہ دار ہوگا،اعتزازاحسن نے کہاکہ کوئی بھی ذمہ دار نہیں کیونکہ آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو بھی استثنی ہے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم سزا نہیں دینا چاہتے، عدالتی حکم پر عمل کرانا چاہتے ہیں، عذر گناہ، بدتر از گناہ ہوتا ہے، بعد میں سماعت کے دوران وقفہ کردیا گیا۔