15 فروری ، 2017
رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا، تو میں بے تکلف یہ تین نام لوں گا غالب، اردو اور تاج محل‘‘۔
ہمارے ایک دوست وسیم احمد جب کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، ان دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی پروفیسر نے سب طالب علموں کو غالب کی شخصیت کی عکاسی ایک سطر میں کرنے کو کہا تو انہوں نے لکھا ’’غالب صدی کا شاعر ہے‘‘۔
پروفیسر صاحبہ نے کلاس کے سب طالب علموں میں سے وسیم صاحب کے بیان کی تعریف کی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ وسیم کا بیان بھی غالب کی شخصیت کو محدود کر دیتا ہے میں تو یوں کہوں گی کہ’’غالب ہر صدی کا شاعر ہے‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ غالب ہر زمانے، ہر صدی، ہر لہجے اور ہر عمر کے شاعر ہیں۔
میری بیٹی فاطمہ جس کی عمر 13برس ہے جس کی اردو بہت بہتر نہیں ،ہے ہمارے چچا غالب اس کے بھی پسندیدہ شاعر ہیں اور اکثر دیوان غالب کی ورق گردانی کرتی نظر آتی ہے اور تو اور لیپ ٹاپ پر مرزا غالب کی غزلیں بھی سنتے پائی گئی ہے اور ایسا دو تین برس سے ہو رہا ہے جب وہ صرف دس برس کی تھی۔
اگر غالب کی وفات کے 148برس بعد بھی انگریزی سکولوں کی پروردہ ایک 10سالہ بچی غالب کی دیوانی ہو سکتی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، غالب کی عظمت کے متعدد پہلو ابھی بھی ایسے ہیں جن پر اب تک پوری توجہ نہیں دی گئی، مثلاً اردو کلام بہت پڑھا گیا لیکن فارسی کلام کا مطالعہ اس پیمانے پر نہیں کیا گیا، دوسرا ان کی اردو غزلوں کے برابر ان کے اردو قصائید پر بہت کم توجہ دی گئی۔
مرزا اسد اللہ خان اردو کےپہلے شاعر ہیں جنہوں نے انداز و بیان میں خاص تغیر پیدا کر کے اردو کی نشو وبلوغ کے وسیع ممکنات مہیا کر دیے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے بعد اردو شاعری نے جو ترقی کی اس کی بنیاد غالب نے ہی فراہم کر دی تھی،انہوں نے خود اپنے کلام کا انتخاب کیا، ایک رام پور میں اور ایک کولکتہ میں، دونوں میں ابتدائی دور کا کلام ہے۔
غالب کو دہلی سے بہت محبت تھی، شاہان مغلیہ کا راج کیا گیا دہلی ہی اجڑ گئی اور یہی صدمہ ان کے آخری دور کی شاعری میں جھلکتا ہے، پیدا تو وہ تاج محل کے شہر آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء کو ہوئے جب مغلیہ اقتدار کا کروفر رخصت ہو رہا تھا، 10اگست 1810ء وہ ایک سے دو ہو گئے اور یہ بندھن ان کی زندگی میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور 1813ء میں وہ دہلی آبسے، یہیں 15 فروری 1869 ءمیں ان کا انتقال ہوا۔
اگر ہم محاسن کلام غالب کا جوہر نکالیں تو یہ عناصر نمایاں نظر آئیں گے،انسانی فطرت کی نباضی اور حقیقت پسندی کی خو جو روایتی عشق کے منافی تھی، غالب کا شمار ان چند ہستیوں میں کیا جا سکتا ہےجن کی شخصیت ان کے کردار سے ماورا رہی، ویسے تو مرزا کا ہر شعر ہی ایسا ہے کہ گویا دل میں ہے لیکن ایک دن فاطمہ کی فرمائش پر یہ شعر بےساختہ زباں پر آ گیا...
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
اور آخر میں غالب کے لیے غالب کے ہی الفاظ میں
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے