26 فروری ، 2017
مکڑی، مقبول،اومکارا،کمینے اور حیدر جیسی فلمیں بنانے والے وشال بھردواج کی فلم ہو اس میں شاہد کپور اور سیف علی خان پہلی باراسکرین پر ”رقیب“ بنے ہوں،فلم کی ہیروئن کوئن اور تنو ویڈز منو کی کنگنا راناوت ہوں، فلم پر ساجد نڈیاڈ والا کا پیسہ لگا ہو، فلم کا بجٹ 80کروڑ ہو،یہی نہیں فلم پیریڈ رومانٹک ڈرامہ ہو ، ٹریلر بھی زبردست ہو اور میوزک بھی خود وشال کا ہو اور گانے گلزار صاحب نے لکھیں ہوں، سب کا خیال یہی ہوگا فلم اگر تھوڑی کمزور بھی ہوئی تو بھی سو کروڑ کا چھکا تو پکا ہے۔
سال کے آخر میں کنگنا تو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ گھر لے کر جائے گی ہی لیکن شاہد اور سیف میں کون بہترین اداکار اور کون بہترین معاون اداکار میں نامزد ہوگا اس کیلئے سب کو بے چینی سے انتظار ہوگا۔”رنگون“ سے جڑے اور دیکھنے والوں کو یقین تھا کہ یہ فلم ان کیلئے ”کلاسک“ کہلائے گی، سب اسے برسوں یاد رکھیں گے لیکن فلم دیکھنے کے بعد صرف ایک گانا دماغ اور دل دونوں کی گھنٹی بجاتا ہے ”بلاڈی ہیل“۔
وشال بھردواج نے سال کے دوسرے مہینے میں ہی اتنی بڑی فلاپ اور ڈبہ فلم دے دی ہے جس کواگلے دس مہینے میں چیلنج کرنا دوسروں کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔یہ بات طے ہے کہ ”رنگون“ کے سارے رنگ پہلے دن ہی بکھر گئے۔اس فلم کا مقابلہ وشال کی فلموں سے نہیں بلکہ آسوتوش گورایکر کی ”موہن جو دڑو“ سے ہوگا۔دونوں مہنگی فلمیں ،دونوں شہر کے ناموں پر، دونوں پیریڈ ڈرامہ، دونوں میں اداکار اور ہدایتکار کی کامیاب جوڑی( آسوتوش اور ریتھک کی ”جوڈھا اکبر“ جیسی کامیاب کلاسک، سیف علی خان اور وشال ”اومکارا“ میں ساتھ آئے، اور شاہد اور وشال کی جوڑی نے ”کمینے“ اور ’حیدر“ جیسی فلمیں انڈسٹری کو دیں)دونوں میگا بجٹ اور دونوں میگا فلاپ فلمیں ثابت ہوئیں۔
رنگون اگر 30کروڑ بھی کمالے تو غنیمت ہوگا۔رنگون وشال کی ”مترو کی بجلی کا منڈولا“ سے بھی کمزور فلم ثابت ہوئی۔فلم کو ویژولی رنگین اور ماسٹر کلاس بنانے میں وشال نے اپنے ہاتھ سے کہانی کا دامن بالکل چھوڑدیا۔ فلم میں اگر کوئی کردار ابھر کر سامنے آیا وہ انگریز جنرل کا تھا۔سیف علی خان کا فلم میں ایک ہاتھ نہیں ہوتا، نواب صاحب نے بھی یہ فلم اس لیے سوچ کر کی ہوگی کہ ”اومکارا“ میں ان کا لنگڑا تیاگی جیسا کلاسک کرداربھی شاید اِس” روسی“ سے پیچھے رہ جائے لیکن یہ روسی تو بیچارہ ان کی ڈیڈ فلاپ ”ہمشکل“ سے بھی بد شکل نکلا۔فلم میں گنتی کے سین، وہ بھی اتنے وقفے کے بعد آتے ہیں کہ سب سیف کو بھول ہی جاتے ہیں ،نواب صاحب! صرف کلائمکس میں تلوار اٹھانے سے کوئی ہیرو تھوڑی بن جاتا ہے۔پھر انگریز جنرل سے بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود یہ روسی اسی وقت ہوش میں آتا ہے جب اس کی ”جان “ دل سے کسی اور کی ہوجاتی ہے۔
فلم میں انگریز جنرل کا پہلے بچنا پھر” دی اینڈ“ ہونا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی کس کے دوست ہوتے ہیں کس کے دشمن یہ فلم دیکھنے کے بعد بھی پتہ نہیں چلتا۔فلم کی کہانی اتنی سست اور بے ربط ہے کہ یقین نہیں آتا کہ اس فلم پر اتنے بڑے ناموں نے کام کیا ہے۔ شاہد اور کنگنا کی ” کیمسٹری“ جمی نہ“ بائیلوجی“۔گانے اتنے زیادہ ہیں کہ فلم گانوں سے ٹھونسی ہوئی لگتی ہے لیکن نہ کوئی چارٹ بسٹر ہے نہ کوئی کلاسک سانگ۔گلزار صاحب اور وشال کی جوڑی بھی اس فلم کے میوزک تک کو ہٹ تو دور کی بات ہے اچھا بھی نہیں کرسکی۔رنگون میں کیمرہ ورک بہت اچھا ہے پروڈکشن ڈیزائن پر بھی خوب پیسہ خرچ کیا گیا لیکن باقی سب شعبے بری طرح ناکام ہوئے۔رنگون سے جڑی ساری بڑی بڑی باتیں چھوٹی نکلی۔ کنگنا، سیف اور شاہد تینوں یہ سوچ رہے ہونگے کہ اب کی بار وشال بھردواج نے آفر کی تو آنکھیں بند کر کے ہاں نہیں کریں گے۔