01 مارچ ، 2017
’بالو ماہی‘ نئی رومانٹک کامیڈی فلم جس کی کہانی میں اتنے جھول ہیں کہ اگر گننے بیٹھ جائیں گے تو شاید گنتی ختم ہو جائے، فلم ختم ہوجائے لیکن جھول ختم نہیں ہوں گے لیکن فلم آپ جھول گننے نہیں انٹرٹین ہونے جاتے ہیں اور ’بالو ماہی‘ میں جھول ہیں لیکن انٹر ٹینمنٹ بھی کچھ کم نہیں۔
آئی جی پولیس کی بیٹی کا شادی ہال سے اتنی آسانی سے بھاگ جانا، پھر ایسی رات کا آنا جس کی صبح نہیں ہو، ’بالو ماہی‘ کا شادی سے بھاگ کر نہر کے پل پر رکنا ہو، پھر دوست کے فارم ہاوٴس میں قیام، پھر ریلوے اسٹیشن، میٹرو اسٹیشن، بادشاہی مسجد کے قریب فوڈ اسٹریٹ پر کھانا، مزار پر قوالی اور پھر دونوں کا پکڑے جانا، بیچ میں ڈسکو سانگ اور عابد کشمیری کی زبردستی ٹھونسی ہوئی گیسٹ اپیئرنس،اتنی لمبی رات لاہور میں تو نہیں شاید لکسمبرگ میں ضرور ہوتی ہو، اس لمبی رات کا اختتام انٹرویل پر جا کر ہوتا ہے۔
وقفے سے پہلے بالو کے دوست کے پاپاجاوید شیخ کی گیسٹ اپیئرنس کمال کی تھی، یہ سین بہت چھوٹا لیکن اتنا ہی زیادہ انٹر ٹیننگ بھی تھا، دردانہ بٹ اور شفقت چیمہ کی نوک جھونک بھی فلم کو زندہ رکھتی ہے، قوالی زبردست پکچرائز ہوئی، اس میں خود راحت فتح علی خان نظر آئے، ڈسکو سانگ میں دونوں ہیرو ہیروئن نے ڈانس بھی خوب کیا۔
اب انٹر ول کے بعد کہانی میں دو مہینے کا وقفہ آتا ہے، فلم کی کہانی لندن سے لاہور اور لاہور سے گلگت پر ختم ہوتی ہے، اب دو مہینے کے اند ماہی دوبارہ بھاگ بھی چکی ہے، پولو کی پلیئر بھی بن چکی ہے اور سب سے بڑھ کر روپ بدل کر لڑکا بن گئی، اب گھوڑے دوڑانے کا خواب اگر صرف پولو سے پورا ہوتا ہے تو یہ ہماری معلومات میں اضافہ ہے۔
ماہی دو مہینے میں گھوڑا چلانا کیسے سیکھ گئی، ماہی جیسی نازک حسینہ صرف نقلی مونچھیں داڑھی لگا کر پولو جیسا کھیل کھیلتی ہے اور پکڑی بھی نہیں جاتی، پولو ٹیم کا بد تمیز کپتان اچانک کلوروفارم سونگھنے سے اچھا ہوجاتا ہے، گلگت جانے کیلئے پل، دریا، پہاڑ سب پار کرنے ہوتے ہیں، لیکن واپسی میں ٹرین کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے۔
اسکرین پلے اور کہانی کے جھول کو دوسرے ہاف میں ڈائریکٹر، لوکیشن، ذومعنی ڈائیلاگز اور سب سے بڑھ کر فلم کا سرپرائز صدف کنول سنبھال لیتی ہیں۔
بالی وڈ ہو یا لالی وڈ سب فلمیں کسی دوسری فلم سے متاثر ہوتی ہیں، چاہے ’شعلے‘ ہو یا ’شعلہ اور شبنم‘، ’آئینہ‘ ہو یا پھر ’یہ جوانی پھر نہیں آنی‘،فلم دیکھنے کے بعد اگر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہو یا آنکھوں میں آنسو تو اس کا مطلب ہے آپ کے پیسے وصول ہو گئے۔
’بالو ماہی‘ بھی شاہد اور کرینہ کپور کی ’جب وی میٹ‘ شاہ رخ خان اوردپیکا کی ’چنئی ایکسپریس‘ اور شاہد اور رانی مکھرجی کی ’دل بولے ہڑپا‘ سے متاثر ہے لیکن جب آپ سیٹ سے اٹھتے ہیں توآپ کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔
فلم کا میوزک بہت اچھاہے،گانے ٹھونسے ہوئے لگے لیکن اچھے تھے، اس لیے برداشت کر لیے گئے،فلم کی لوکیشن بھی بہت خوبصورت ہے، لاہور اور گلگت کو بہترین انداز میں عکس بند کیا گیا، ڈائیلاگز اچھے لیکن کہیں کہیں بہت ذو معنی ہیں،فلم میں گالیاں بھی ہیں جن کی ضرورت بالکل نہیں تھی اور انہیں ایڈٹ اور سینسر بھی کیا جاسکتا تھا۔
کیمرہ مین (ڈی او پی) سلیم داد اور میوزک ڈائریکٹر ساحر علی بگا کو 5میں سے 4اسٹار تو ملنے چاہئیں، اداکاروں میں عینی جعفری بہت خوبصورت لگیں، جنہوں نے بالو ماہی کے ڈسکو سانگ میں مشکل ڈانس اسٹیپس اچھے نبھائے لیکن ’بے چینیاں‘ میں آسان رقص میں وہ مشکل میں نظر آئیں،جہاں جہاں عینی کو کرینا کپور بنانے کی کوشش کی گئی وہاں ان کی خوبصورتی تھوڑی کم ہوئی۔
عثمان خالد بٹ کی ایکٹنگ میں اوور ایکٹنگ زیادہ تھی لیکن عثمان سینما پر بہت گڈ لکنگ لگے، فلم میں دردانہ بٹ، شفقت چیمہ اور بالو کے دوست کا کردار ادا کرنے والے اداکار کی ایکٹنگ سب کو پسند آئی، دردانہ بٹ کے ڈائیلاگز اور ایکشن بھی زبردست تھا لیکن فلم کا سب سے بڑا سر پرائز نکلا صدف کنول،جی ہاں شرمین کا کردار ادا کرنے والی ’بولڈ اینڈ بیوٹی فل‘ صدف کنول،جنہوں نے انتہائی مشکل کردار جس کو اسکرین پر’بیتاب‘ پرکشش اور حسین لگنا تھا بڑی ہی آسانی سے ادا کیا۔
ذومعنی ڈائیلاگز بھی اتنی آسانی سے ادا ہوئے کہ سب بڑے انٹر ٹین ہوئے یعنی یہ ڈائیلاگز برے نہیں لگے، یہاں صدف پر کوئی نہ کوئی آئٹم سانگ ضرور ہونا چاہیے تھا جس سے فلم کو اور فائدہ پہنچتا۔
ہشام حسین نے بطور ڈائریکٹر اپنا کام بخوبی نبھایا، وہ یقیناً ہر فلم کے ساتھ اپنے کام میں مزید بہتری لائیں گے ،بالو ماہی زیادہ تر لوگوں کی پہلی فلم تھی پھر بھی اس فلم نے انٹر ٹین کیا اس لیے اس خوبصورت فلم کیلئے 5میں سے ساڑھے 3اسٹاررز بنتے ہیں۔