خصوصی رپورٹس
01 مارچ ، 2017

عظیم تاریخی ورثہ’پکا قلعہ‘ تباہی کا شکار

عظیم تاریخی ورثہ’پکا قلعہ‘ تباہی کا شکار

...یعقوب ہارون...
’’آثار کہہ رہے ہیں عمارت عظیم تھی،‘‘ لیکن خاص اس مضمون کیلئے مجھے یہ کہاوت کچھ یوں لکھنا پڑے گی، ’’آثار کہہ رہے ہیں قلعہ یہ عظیم تھا‘‘ اوریہ سچائی فقط اس کہاوت تک محدود نہیں۔

آج بھی یہ جیتی جاگتی حقیقت اپنی خستہ حالی اور تباہی کے باوجود شہر حیدرآباد کے وسط میں موجود ہے، ماضی میں فن تعمیر کے ماہرین کی عظمت اورسندھ کے عظیم ٹالپرحکمرانوں کی یاد دلاتا ہے۔

دوسری لیکن ایک نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کے قابل رشک ماضی کی یاد دلانے والا یہ عظیم قلعہ اب انتہائی کسمپرسی، حکمرانوں کی عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے یا یہ کہیں کہ تباہ ہو گیا تو غلط نہیں ہو گا۔

اپنے دور میں یہ قلعہ بلا شبہ شان و شوکت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اس کی باقیات میں ایک دیو ہیکل دروازہ اپنی زبوں حالی کی دُہائی دیتا نظر آتا ہے، یہ قلعہ تاریخی واقعات کا گواہ ہے جس نے اپنے وقت کے کئی طاقتور حکمرانوں کا عروج اور پھر زوال دیکھا، قلعے کی باقیات آج بھی اس کے شاندار ماضی سے لے کر اس کی موجودہ حالتِ زار کی کہانی بیان کرتی نظر آتی ہیں۔

جب 1768ء میں کلہوڑو خاندان کے حکمراں میاں غلام شاہ نے سندھ کے قدیم قصبے نیرون کوٹ کے مقام پر حیدرآباد شہر کی بنیاد رکھی تو اس نئے شہر کی تعمیر کے دوران ہی یہ تاریخی قلعہ گُنجے نامی پہاڑی پر تعمیر کیا گیا، تاریخی دستاویزات کے مطابق اس قلعے کی تعمیر دیوان گدومل کی زیرِ نگرانی ہوئی جو میاں غلام شاہ کلہوڑو کے ایک قابل درباری تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے انہیں میاں غلام شاہ کلہوڑو کی جانب سے دو کشتیاں بھر کر سرمایہ دیا گیا تھا اور وہ قلعے کی تعمیر کے دوران یہیں مقیم رہے، اس عظیم الشان قلعے کی تعمیر میں پکی اینٹوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے اسے سندھی میں پکو قلعو اور اردو میں پکا قلعہ کہا جانے لگا، یہ قلعہ کبھی باغات، بڑے محلات، درباروں اور دیگر خوبصورت تعمیرات سے بھرا ہوا تھا، الغرض 33 ایکڑ پر قائم یہ قلعہ کسی شاہکار سے کم نہیں تھا۔

یہ قلعہ میاں غلام شاہ کلہوڑو کا پایہ تخت تھا جہاں سے وہ اپنے نئے دارالحکومت حیدرآباد کو پھلتا پھولتا دیکھ سکتے تھے لیکن صرف 3سے 4سال کے درمیان ہی ان کی اچانک وفات کے بعد کلہوڑا دور کی تنزلی کا آغاز ہو گیا، بلوچ سرداروں کے قتل اور علاقے میں عدم اعتماد کی فضا پھیلنے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ایک بلوچ قبیلے ٹالپر اور کلہوڑو کے بیچ 1782ء میں خونریز جنگ ہوئی،اس لڑائی میں ٹالپروں کی قیادت میر فتح علی خان ٹالپر نے کی اور ان ہی کی قیادت میں کلہوڑو دورِ حکومت کا خاتمہ ہوا، میر فتح علی خان ٹالپر کے دورِ حکومت میں قلعے نے شان و شوکت کی بلندیاں دیکھیں، نئی عمارتیں تعمیر کرائی گئیں اور پرانی عمارتوں کی تزین و آرائش کی گئی۔

اس عظیم قلعے کی دیواریں پکی اینٹوں اور پتھروں سے تعمیر کی گئیں جو غیرمعمولی چوڑائی کی وجہ سے لگ بھگ آدھےمربع میل پر پھیلی ہوئی ہیں، قلعے میں 1800کے قریب پرآسائش عمارتیں ہیں جن میں سے اکثر سندھ کے امراء کے محلات ہیں، قلعے کی حفاظت کے لیے ایک بلند و بالا مینار بھی تعمیر کیا گیا جس میں اوپر تک پہنچنے کے لیے 76 زینے ہیں جہاں ایرانی ساخت کی 84پاؤنڈز وزنی چار توپیں بھی نصب کی گئی ہیں۔

قلعے کے زوال کا آغاز 1843ء میں ہوا جب چارلس نیپیئر کی سربراہی میں برطانوی فوج نے چڑھائی کر دی، جس کے بعد میرٹالپر کے جنگجوؤں اور فرنگیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی، اس لڑائی میں ٹالپروں کو شکست دینے کے بعد قلعے پر برطانوی فوج نے قبضہ کر لیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران ہونے والے دھماکوں کے سبب کئی عمارتیں تباہ ہوگئیں جبکہ بہت سی عمارتوں کو جنگی سازوسامان رکھنے اور فوجی بیرکوں میں تبدیل کردیا گیا۔

1947ء میں تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے باعث حکام نے قلعے کو عارضی کیمپ میں تبدیل کردیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عارضی کیمپ ایک بے ہنگم صورت اختیار کرتا گیا، لوگوں کی جانب سے قلعے پر قبضے اور غیر قانونی تعمیرات بھی قلعے سے جڑے مسائل میں سے میں سے ایک تھے۔

حکومت کی جانب سے 90 کی دہائی میں کی جانے والی کوششوں کے باوجود لوگ اس جگہ کو چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں تھے حالانکہ اس میں رہنا کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں تھا، آج بھی نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث یہ ’پکا قلعہ‘ روز بروز خستہ حالی اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔

قلعہ کا برائے نام حصہ ہی اب اصل حالت میں برقرار ہے، اس کا شاہی بازار کی جانب کھلنے والا مغربی دروازہ انتہائی خستہ حالت میں ہے، اس کے ساتھ ہی ایک بڑی عمارت ہے جو کبھی ٹالپروں کے زیرِ استعمال ہوا کرتی تھی اور بعد میں اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا، قلعے کی دیواروں پر بنائے گئے انمول نقش و نگار ماہ و سال کی سختیوں کی وجہ سے تقریباً مٹ چکے ہیں۔

کہتے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ میوزیم سےکئی نوادرات چوری ہوچکے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بابری مسجد کے سانحے کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے اس عجائب گھر پر حملہ کردیا تھا اور اس واقعے میں بہت سے نوادرات کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔

قلعے کے بائیں جانب ایک خیمے نما جگہ ہے جو کبھی شاہی اصطبل ہوا کرتا تھا، یہ اصطبل بھی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس میں موجود کچرے کے ڈھیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب اس کا استعمال کچرہ کنڈی کے طور پر کیا جارہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ عمارت کی دیواریں آہستہ آہستہ گرتی جارہی ہیں جب کہ لوگ اس کے اندر اور اس کی دیواروں کے سائے تلے اب بھی رہائش پذیر ہیں اور یہاں رہائش پذیرافراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

اس قدیم ورثے کا تحفظ اور فوری بحالی سندھ کی قدیم اور تاریخی شناخت قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، قلعے کو اس کی اصل حالت میں محفوظ کرنا ہی اس کی اصل بحالی ہوگی اور اس ضمن میں ان اسباب کو مد نظر رکھنا بے حد ضروری ہے جو اس قلعے کی تباہی کا سبب بنے، جن میں ماحولیاتی تبدیلیاں، برساتی پانی کا جمع ہونا، نکاسی آب کا فقدان، جنگلی پودوں کی افزائش اور خاص طور پر مجرمانہ انسانی غفلت قابل ذکر ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ جو کچھ تباہ ہوگیا اسے تو واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن جو کچھ باقی ہے اسے بحال کرنے اور بچانے کی کوششیں ضرور کی جا سکتی ہیں ورنہ پکا قلعہ جیسا قدیم اور انمول ورثہ بھی صفحۂ ہستی سے مٹ کر صرف تاریخ کی کتابوں کے صفحات تک محدود رہ جائے گا۔