بلاگ
08 مارچ ، 2017

پھٹیچر کھلاڑی

پھٹیچر کھلاڑی

  • گزشتہ رات میں جیم خانہ کرکٹ گرائونڈکی دیوار کے پاس بیٹھا ہو ا تھا کہ اچانک سامنے بات کرتے کرتے لڑکوں کی آواز اُونچی ہوتی گئی اوراُن کی گفتگو کا دائرہ بڑھتا چلا گیا اور میری طرح اَس کے پاس بیٹھے لوگ بھی اُن کی گفتگو سے متوجہ ہونے لگے۔

اَتنے میں ایک بزرگ نے کہا ـ’انسان کسی کی مخالفت میں اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ کبھی کبھی ملک کا احترام بھی بھول جاتا ہے۔‘

یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ جن کا نا م ،کام اور خدمات کرکٹ کا بڑا اثاثہ ہیں اور صرف اثاثہ ہی نہیں بلکہ ا ن کی خدمات ایک اعلیٰ مثال ہےاور جس نے ایک ٹیم کو متحد کر کے ورلڈ کپ جیتوایاتھا، ان کے ایک بیان نے کھلبلی مچا دی ہے۔

جب ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہواور کوئی بھی غیر ملکی ٹیم پاکستان آنے کو ترجیح نہ دے تو اِیسی صورتِ حال میں ملک دشمن عناصر کو شکست دینے کی خاطر پی ایس ایل کا فائنل لا ہور میں منعقد ہوا تو یہ انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے ۔

موجودہ حالات میں غیر ملکی کھلاڑیوں نے آنے سے منع کردیا تھا لیکن اس کے باوجود جو کھلاڑی آئےاُن کی ہم قدر کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک نے تو دو ورلڈ کپ بھی جیتوائے۔

سوچ کا محور کہیں تھمتا نہیں ،کہیں رُکتا نہیں۔ مجھے قارئین سے ہی یہ سوال پوچھنا ہے کہ کیا اِیسے کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہنا درست ہے؟؟؟

کیا خطرات مول لے کر یہاں آنے والے کھلاڑیوں کی تذلیل کرنا درست ہے؟؟؟

کیا یہ بیان نسل پرستی کے دائرئے میں نہیں آتا؟؟؟

کیا یہ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ اِنہیں پیسے دو تو یہ یہاں ڈومیسٹک کرکٹ بھی کھیلنے پر تیار ہوجائیں گے ؟؟؟

کیا مہمانوں کو اِیسا کہنا اور ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا درست ہے؟؟؟

کیا یہ انگنت کرکٹ کے پرستاروں کی دل آزاری نہیں ؟؟؟

ان تمام سوالات کے جوابات میں اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں ۔