بلاگ
08 مارچ ، 2017

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے!

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے!

کل سے چچا غالب بہت یاد آ رہے ہیں، ان کی شاعری بلاشبہ انسانی جذبات کا بہت ہی خوبصورت اظہار ہے، آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ان کو اپنے استاد ابراہیم ذوق کی شان میں فقرہ چست کرنے پر لال قلعے کے دیوان خاص میں طلب کیا، اس موقع پر مرزا نوشہ نے جو غزل پڑھی اس کا ایک شعر مجھے بہت یاد آیا اور اس کا پس منظر سوشل میڈیا پر جاری بحث ہے جو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے،شعر اس طرح ہے

ہر ایک بات پہ کہتےہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

اسی مفہوم میں ایک اور شعر بھی یاد آ رہا ہے

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی ہو جاتی ہے اور اس کا اعتراف کر لینا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے، اگر کوئی عوامی رہنما ایسی بات کر جائے تو قوم کافی جذباتی ہو جاتی ہے اور لیڈر کو دائرہ انسانی سے خارج سمجھ کر ہدف تنقید ذرا زیادہ ہی بنا ڈالتی ہے۔

اس حوالے سے مجھے افلاطون کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے کہ افلاطون اپنے اُستاد عظیم فلسفی سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بات کر رہا تھا‘‘ سقراط نے ذرا توقف کے بعد مسکرا کر پوچھا ’’وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟‘‘ افلاطون جذباتی لہجے میں بتانے ہی والا تھا کہ اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ’’تم یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں ’’افلاطون نے بڑے ادب سے اپنے استاد سے پوچھا کہ تین کی کسوٹی کیا ہے؟‘‘ عظیم فلسفی گویا ہوا ’’کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد درست ہے؟‘‘

افلاطون نے انکار میں سر ہلایا تو سقراط نے ہنس کر کہا ’’پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ افلاطون خاموشی سے استاد کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا ’’یہ پہلی کسوٹی ہے اور اب آتے ہیں دوسری کسوٹی کی طرف ،مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘ افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلایا اور کہا کافی بُری بات ہے آپ کی شان کے خلاف ہے۔

سقراط نے مسکرا کر کہا ’’کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے؟‘‘

افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا، سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی‘‘۔افلاطون اس بار بھی خاموش رہا۔

سقراط نے ذرا توقف کے بعدکہا ’’اور اب تیسری اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟‘‘

افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اورکہا کہ استاد محترم! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے‘‘

سقراط نے ہنس کر کہا ’’اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اب افلاطون لاجواب ہو گیا اور پریشان ہو کر استاد کی طرف دیکھنے لگا، یونان کے اس عظیم فلسفی نےمکالمے یا گفتگو کے یہ تین اصول ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے، وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے!

1۔’’کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟‘‘
2۔’’کیا یہ بات اچھی ہے؟‘‘
اور
3۔’’کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟‘‘

اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ کسی جھجک کے بغیر کہہ دیتے تھے اور اگر وہ ایک بھی کسوٹی پر پوری نہ اترتی تو وہ خاموش ہو جاتے، ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ پہلے بات تو تولو پھر بولو، یہ میری دادا جان کا پڑھایا سبق ہے، میں آج بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مزید برآں اسلام ہمیں کیا درس دیتا ہے، ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے، آج ہمارے معاشرے کو بھی اِس ’’تین کی کسوٹی‘‘ کی بہت ضرورت ہے، جہاں منہ پھٹ ہونا اب گویا تہذیب کا حصہ بنتا جا رہا ہے، والدین اس کو اپنے بچوں کی بولڈنیس یا اسٹریٹ فارورڈنیس کہہ کر بدتہذیب اور گستا خ بنا رہے ہیں، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ ہے اور ہر فرد دوسرے کے لیے زبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے بہت سے افسوسناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔

عمران خان نے اگر یہ بات نجی محفل میں کی ہے تو اس کو اچھالنا اسی طرح غلط ہے جس طرح گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں انوشہ رحمان کی ان کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنانا غلط اور میڈیا اخلاقیات کے دائرے سے باہر تھا، اس وقت بھی سوشل میڈیا اور روائتی میڈیا پر وہ غل غپاڑہ مچایا گیا اور یہی کیا جا رہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقدار کا دیوالیہ نکل چکا ہے اور بحیثیت مجموعی ہم ایک قوم کی بجائے ایک ایسا شتر بے مہار ریوڑ ہیں جن کی کوئی منزل نہیں، بس بے شرمی کے دھارے پر بہتے جا رہے ہیں۔

مصنف صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں