بلاگ
13 مارچ ، 2017

سیاست دانوں کا غیر سنجیدہ رویہ اور بدلتا سماج

سیاست دانوں کا غیر سنجیدہ رویہ اور بدلتا سماج

انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی شخصیت کو سمجھنا بے حد مشکل ہے، ایک تو صبح شام تلقین شاہ بنے رہنا، ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں، لیکن دوسری طرف غیبت اور بہتان طرازی کے گہرے سمندر میں دن رات بہتے چلے جا رہے ہیں، پتھروں کی پرستش تو صدیوں پہلے چھوڑ دی مگر شخصیتوں کے بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دی اور اس پسندیدہ شخصیت نے کچھ بھی الٹا سیدھا بول دیا، بس دیوانے اس کے پیچھے چل دیے۔

او اللہ کے بندو! تمہیں بھی ایک عدد دماغ عطا کیا گیا ہے کبھی کبھی اس کا استعمال کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، آپ کا لیڈر بھی بندہ بشر ہے، غلطی اس سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن جناب!ہم تو ہیں ہی کاٹھ کے الو، بس بھیڑ چال ہی چلتے ہیں اور بھر اگلی بھیڑ کے ساتھ ہی کنویں میں جا گرتے ہیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رہتے ہیں کہ بلی میری طرف نہیں آ رہی وہ کہیں اور جا رہی ہے اور آخر کار بلی چٹ کر کے ڈکار لے کر یہ جا وہ جا، لیکن جناب ہم نہیں سیدھے ہونےوالے، ہمارے لیڈر نے جو کہہ دیا بس کہہ دیا، چاہے سماجی اقدار کے خلاف بات ہو، چاہے گھر آئے مہمان کی ایسی کی تیسی ہی کیوں نہ پھیری گئی ہو، ہمیں یہاں دین سے کیا لینا دینا کہ وہ مہمان کی عزت کے حوالے سے کیا حکم دیتا ہے،اندھی تقلید سے منع کرتا ہے، اس وقت لیڈر کا اندھا پجاری یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ابو جہل کو ابو جہل کیوں کہا گیا کیونکہ وہ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید پر تلا ہوا تھا اور یہی ہمارا عمومی رویہ ہے، اسی لیے بات اب گالی سے مکے تک بڑھ گئی ہے اور یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

آخر ہمارے رویے ایسے کیوں ہیں اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں، جن کیفیات کا تعلق انسانی اقدار سے ہوتا ہے وہ رویے کہلاتی ہیں ، ماہرین سماجیات اور نفسیات کا پسندیدہ موضوع انسان کے عمومی اور اجتماعی رویوں پر اس کے ارد گرد کے ماحول کے اثرات کا مطالعہ رہا ہے، آج کا دور تو میڈیا کا دور کہلاتا ہے، میڈیا کے ماہرین بھی اب سوشیالوجی اور نفسیات کے اصولوں اور نظریات کو بروئے کار لا کر میڈیا کے انسانی رویوں پر اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

دو ڈھائی برس پہلے جب پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے ’اوئے‘ کلچر متعارف ہوا ،اس وقت بھی میں نے اپنے کالموں اور لیکچرز میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ملک کے تہذیبی اثاثے کا دیوالیہ نکلنے والا ہے، اسی دور میں میڈیا کو بھی تقسیم کیا گیا، کیونکہ اسی میڈیا کے اتحاد نے 2007ءمیں ایک تاریخ رقم کی تھی، جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، جس طرح 1857ء کے بعد انگریز نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی ،کیونکہ جنگ آزادی میں ہندو اور مسلم دونوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا شہنشاہ تسلیم کیا، اس کا اگر بغور  مطالعہ کریں، تو یہ حیرت انگیز نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہندو ذہنی طور پر مسلمانوں کو ہندوستانی  معاشرے کا حصہ سمجھ رہے تھے اور انگریز کو غیر اور اپنے سماج سے باہر، چنانچہ شاطر انگریز سمجھ گیا کہ اسے کیا کر نا ہے اس کے آج اثرات ہمارے سامنے ہیں، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔

یہی 2007ءکے بعد ہمارے یہاں کے شاطروں نے کیا، اب اتنی ہی تقسیم ہمارے معاشرے میں ہو چکی ہے اور اسی  رویے کا اظہار دانائے راز حضرت علامہ اقبال بانگ درا میں کر رہے ہیں

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

شخصیت پرستی کی وجہ سے لوگ ان کی نقل کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی لیڈر ہو، ایکٹر ہو، آرٹسٹ ہو اور اسی سے معاشرے میں ثقا فتی تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے،ماہرین کے مطابق وہ خطے جہاں آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے، جیسے ہمارے ایشیائی ممالک، یہاں کے لوگ عقل و شعور سے کہیں زیادہ جذبات کی سطح پر رہتے ہیں اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، جذبات کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اسی لیے اکثر لوگ مذہب یا مطالعے کی طرف دلچسپی بڑھا لیتے ہیں،مگر بعض لوگوں پر اس کے برعکس اثر ہوتا ہے، وہاں خود غرضی اور جذباتیت، زود رنجی اور دشنام طرازی کو فروغ ملتا ہے، اچھے بھلے عمر رسیدہ لوگ جذباتیت کی زد میں آ کر تحمل اور برد باری کی صفات سے محروم ہو جاتے ہیں، اب تخلیق کا عمل اگر گھٹیا ہو گا تو سستی قسم کی نقالی کو فروغ ملے گا جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان میں ہو رہا ہے۔

سادہ الفاظ میں جو لیڈر کہے گا، لوگ اس کے پیچھے لگ کے اپنے رویے بھی ویسے ہی کر لیں گے، وہ اگر گھٹیا بات کرے گا، اس کے دیوانے بھی وہی کریں گے، وہ اگر مکا مارنے والے کی حوصلہ افزائی کرے گا تو اس کی اندھی تقلید کرنے والے اس کو جسٹی فائی کرنے کے چکر میں مکے ماریں گے، ذرا سوچئے، لیڈر کا کام ہے رہنمائی کرنا، اب وہ کیسی رہنمائی کر رہا ہے، اس کا اپنا کردار کیسا ہے، اس کو تو ایک رول ماڈل ہونا چاہیے، اب چاہے کرپشن ہو یا دیگر غیر سنجیدہ رویے، لیڈروں کے مقلدین انہی کو اپنائیں گے۔

انٹرنیٹ پر سوشل میڈیائی یلغار اور ٹی وی چینلز کی مقابلہ بازی سے سستی نقالی کا رجحان معاشرے میں ایک سماجی بیماری کی صورت اختیار کر گیا ہے، ماہرین کو اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے اور ہمارے لیے یہ لمحہ فکر ہے، اس حوالے سے میں نے ایک نئے مضمون پر بہت کام کیا ہے، اس کو میں نے ابلاغی نفسیات کا نام دیا ہے، ماہرین کے مطابق رویوں کا تعلق ہمارے افعال سے ہوتا ہے، اسی طرح ہماری رائے کا ہماری عقیدت سے، رویوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص کس قسم کا عمل کر ے گا، اس کا ردعمل کیا ہو گا، پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں شخصیت پرستی بہت زیادہ ہے، اسکی وجہ ہزاروں سال سے یہاں کی بت پرستی ہے، مسلمان معاشرے میں چونکہ بت پرستی کی گنجائش نہیں اس لیے شخصیت پرستی شروع ہو گئی ۔

’اوئے‘ کلچر کے اثرات جو ہمارے معاشرے نے قبول کر لیے اور ہمارے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنے، زیادہ اثرات نوجوانوں نے قبول کئے، جن میں جذباتیت کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اور اب اس کا اگلا مرحلہ مکا مارنے کی صورت میں سامنے آیا ہے، اگر کسی نے بدزبانی کی تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا، اس کلچر کا آغاز کس نے کیا، اگر اب دوسرا فریق آپ ہی کی عنایت کردہ روایت کا استعمال کرتا ہے تو غصہ کس بات کا اور اب آپ نے مکا دھر دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بجائے اس کی مذمت کی جاتی، اس کی حوصلہ افزائی کر کے ایک نئے معاشرتی رویے کی طرح ڈالی گئی ہے، اس کی مثال اس طرح ہے کہ آپ کا بچہ گلی محلے میں کسی کو پیٹ کر آتا ہے اور آپ اس کو سمجھانے کے بجائے تھپکی دیتے ہیں تو وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟ اس کا سماجی رویہ کیا ہو گا؟ اپنے دوست احباب کے ساتھ، اپنے بیوی بچوں اور معاشرے کے ساتھ اس کو سمجھنے کے لیےکسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار اس کے والدین ہوں گے۔

مصنف صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں.