30 مارچ ، 2017
محبت کیا ہے؟اس کا ایک سیدھا جواب تو یہ ہے کہ محبت ایک جذبہ ہے جس کی افادیت مسلمہ ہے اور اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محبت روشنی کی ایک کرن ہے جو اپنے اندر بے شمار رنگ سمیٹے ہوتی ہے لیکن جب اس کو جذبوں کے شیشے کی منشور میں سے گزارا جائے تو بے شمار حسین رنگ پھوٹ پڑتے ہیں اور ان رنگوں میں بے شمار جذبے پروان چڑھتے ہیں۔
بعض لوگ محبت کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہیں حالانکہ محبت کی تقسیم ممکن ہی نہیں، لیکن اگر ہم ان کی رائے کو تسلیم کر لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماں کا اپنے بچوں سے پیار بھی محبت ہے، استاد بھی اپنے شاگرد سے پیار کرتا ہے، کسی تخلیق کار کو بھی اپنی تخلیق سے محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ انسانی رشتوں سے بھی بڑھ جاتی ہے، انسان کا بچہ بھی ایک تخلیق ہے، قدرت کی بے حد خوبصورت اور انمول تخلیق اس لئے تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس کی ماں سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے۔
تاہم ان محبتوں کے ساتھ ساتھ شاعروں نے ایک اور محبت بھی تخلیق کی ہے، یہ وہ محبت ہے جس کے متعلق ہم آج کل کم و بیش ہر نوجوان سے تذکرہ سنتے ہیں، اس محبت کا ظالم سماج سے گہرا ربط ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
کسی شاعر نے محبت کی تعریف یوں بھی کی ہے کہ
اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
شاعر نے محبت کے متعلق گہری بات کہی ہے لیکن یہ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ انسان صرف محبت کرتا تھا، اب اسے اور بھی بہت کام ہیں، یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے کہ محبت کی جائے یا دنیا کے کام کئے جائیں، سولہ سترہ برس کا نوجوان یقیناً یہی کہے گا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتے، محبت صرف محبت مانگتی ہے، ویسے اگر اس جذبے کا صحیح استعمال کیا جائے تو فرہاد کی سی ہمت اور استقلال کے ساتھ شہنشاہ وقت سے بھی ٹکر لی جا سکتی ہے، چاند کی تسخیر ہو سکتی ہے۔
اقبالؒ فرماتے ہیںکہ یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے اور یہی تینوں چیزیں اسلحے کا کام دیتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یقین اور محبت کے ساتھ کشمیر فتح ہو سکتا ہے، اس کے لیے عمل اور جدوجہد شرط ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے اب تک بے شمار شاعروں، ادیبوں، ناول نگاروں اور فلاسفروں نے کسی نہ کسی طرح اپنے طور پر محبت کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کس حد تک کامیاب ہوئے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنی اپنی حد تک انہوں نے تعریف کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔
اگر ہم یونانی دیومالائی داستانوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں عجیب قسم کے مفروضات اور نظریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ہم عام سنتے ہیں کہ ’’محبت اندھی ہوتی ہے‘‘، ان کے نزدیک کیوپڈ اندھا ہے، وہ جس پر بھی تیر چلاتا ہے، وہ اس کا شکار ہو جاتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ محبت اندھی ہوتی ہے، حماقت پر مبنی تصور نہیں ہے؟
اس وقت وہ نوجوان جو محبت کی نرسری میں ہیں، اس بات کو تسلیم کرتے ہوں گے کہ محبت اندھی ہوتی ہے اور معاشرتی قیود سے آزاد بھی، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ محبت کا تعلق روح سے ہے، وہ اپنی اس دلیل کو ثابت کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ انسان پہلے عالم ارواح میں رہتا تھا، وہاں کبھی روحوں کی ملاقات ہوتی ہو گی، انہوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا ہو گا، جب ہم اس کو اس دنیا میں دیکھتے ہیں تو اچانک ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم پہلے بھی کبھی ملے تھے۔
شیکسپیئر کہتا ہے کہ
’’محبت اندھی ہوتی ہے اس لئے محبت کرنے والے اپنی ان غلطیوں کو محسوس نہیں کر سکتے جو ہر لمحہ ان سے سرزد ہوتی رہتی ہیں‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ محبت کرنے والے بے شمار غلطیوں کو دہراتے ہیں، بالآخر یہ غلطیاں اس محبت کے تاج محل کو ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہیں، اسی لئے لارڈ بائرن کہتا ہے کہ
’’جلد یا بدیر محبت اپنا انتقام خود بن جاتی ہے‘‘،یہ محبت کرنے والے نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں، انہیں محبوب کی ہر ادا اچھی لگتی ہے، محبوب کا ہر غم اپنا غم لگتا ہے اور ہر داستان محبت کو کم و بیش اپنی ہی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں، اس لئے تو براؤننگ کہتا ہے کہ
’’جو محبت کرتا ہے وہ ناممکنات کو تسلیم کرتا ہے‘‘
محبت کرنے والے کے نزدیک کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی، اس جذبے کے ساتھ وہ شہنشاہ وقت سے ٹکرا جاتا ہے، کبھی وہ تپتی ہوئی ریت پر لیٹتا ہے، کبھی سرِ دار آتا ہے، کبھی زمین میں گاڑ دیاجاتا ہے لیکن صدیاں بیت گئیں محبت اپنی افادیت کے ساتھ، اپنی ماورائی طاقت کے ساتھ بے پناہ خوبصورتی کا احساس لئے زندہ و تابندہ ہے۔
جبران کے بقول’’محبت جذبات کے سمندر کا ٹھنڈا سانس، آسمان کا آنسو اور روح کے سبزہ زار کا تبسم ہے‘‘
صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں