بلاگ
04 اپریل ، 2017

بھٹو کی داستان اور آج کی پیپلزپارٹی

بھٹو کی داستان اور آج کی پیپلزپارٹی

قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد گزشتہ 70؍ سال کے دوران پاکستان میں کئی رہنما پیدا ہوئے۔ قائداعظمؒ کو مزید چندبرس  کی مہلت حیات ملتی تو وہ ملک کی سمت طے کردیتے اور اکثر تنازعات ابھر کر سامنے ہی نہ آتے۔ قائد اعظم کے بعد پاکستان کی سیاست پر سیاسی و عسکری بے جوڑ اور نوکر شاہی کی رکاوٹیں حاوی رہیں جنہوں نے چار مارشل لا یا فوجی حکمرا نوں کے لئے راہیں ہموار کیں جس کیو جہ سے مضبوط رہنما سامنے نہیں آسکے لیکن اگر کوئی ایسا رہنما سامنے بھی آیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

انہوں نے تقریباً چار دہائوں تک عوام کے دلوں اور ذہنوں پر حکمرانی کی۔ ان کے بعد بیٹی بے نظیر 25؍ سال تک اسی ورثے کو لے کر چلیں لیکن ان کی وفات کے بعد سے پیپلزپارٹی کو جس صورتحال کا سامنا ہے اس سے وہ سنبھل نہیں سکی۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کی 38؍ ویں برسی ہے۔ وہ بلا شبہ ملک میں پیدا ہونے والے طاقت ور ترین سیاست دان تھے وہ آزاد خارجہ پالیسی کے خالق رہے۔

ان کی داستان شاید وقت کے ساتھ ماند پڑتی جارہی ہے لیکن تاریخ میں وہ امر ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد حتیٰ کہ مخالفین بھی بھٹو کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ انہوں نے کئی دیرینہ تنازعات کو حل کیا اور ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔ ان کے حوالے سےتنازعات کے باوجود لوگوں کا ایک کلیہ پر یقین ہےکہ ’’بھٹو سے محبت یا نفرت تو کی جاسکتی ہے لیکن انہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا‘‘ بے نظیر بھٹو کے سانحہ قتل تک پاکستان کی سیاست پر بھٹو نواز اور بھٹو مخالف چھائے رہے۔

1958ء سے 1979ء تک اپنی 21؍ سالہ سیاست میں بھٹو نے 30؍ سے 52؍ برس کی عمر میں وہ کچھ حاصل کرلیا جس کی سیاست میں آنے والے کو خواہش ہوسکتی ہے۔ وہ 30؍ سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر صنعت بنے اور 34؍ سال کے ہوئے تو وزیر خارجہ کا اہم عہدہ ان کے پاس تھا۔ اس حیثیت میں انہوں نے سوویت یونین سمیت ان ممالک سے بھی تاریخی سمجھوتے کئے جو پاکستان کے دوست تصور نہیں کئے جاتے تھے۔ انہیں پاک چین تعلقات کا معمار تصور کیا جاتاہے۔ اپنی جوانی ہی میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک کی قیادت کی۔ 50؍ برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی وہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ بھٹو کو سانحہ مشرقی پاکستان کا بھی الزام دیا جاتا ہے کہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کو ملک کا وزیر اعظم بننے نہیں دیا۔ 

1972ء تا 1976ء بھٹو کادور تنازعات سے عبارت رہا۔ ان کی سب سےبڑی غلطی یہ رہی کہ پارٹی اورعوام کی طاقت پر اعتبار کرنے کے بجائے ان پر الزام ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کے مشوروں پر چلتے ہوئے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل تخلیق کیا۔ ایوب خان کے زمانے سے پاکستان کی سیاست میں ایجنسیوں کا کردار رہا ہے۔ لیکن پھر بھٹو کا اپنی پارٹی کے مخلص رہنمائوں سے تعلق ٹوٹ گیا بعدا زاں جس کا اعتراف انہوں نے اپنی پارٹی کے سوشلسٹ رہنما شیخ رشید احمد کے سامنے بھی کیاتھا جب انہیں پیپلزپارٹی کی قائم مقام چیئرمین شپ پیش کی گئی تھی لیکن پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے،مضبوط اسلامی بلاک قائم کرنے، تیسری دنیا کے ممالک کو نئی امید دینے اور پاکستان کو 1973ء کا متفقہ آئین دینے کے حو الے سے کوئی رہنما ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

27؍ دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں بے نظیر بھٹو کے دہشت گرد حملے میں قتل کےساتھ بھٹو کی میراث ماند پڑنی شروع ہوگئی اور آج نعرہ جئے بھٹو میں پہلے جیسا جوش و خروش اور جذبہ نظر نہیں آتا۔ اس کیوجہ ورثے کو لے کر چلنے کے لئے ’’حقیقی بھٹو‘‘ کا نہ ہونا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے بھی بھٹو کے مشوروں کو نظرانداز کرکے اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ بڑی سیاسی غلطیاں کیں۔بھٹو کا انہیں پہلا مشورہ تو یہ تھا کہ امریکا دوست نہیں، سفید ہاتھی ہے اور طاقت صرف عوام کی ہے۔

دوسرا مشورہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے تھا جس نے بے نظیر پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ  سے مفاہمت کے حوالے سے بے نظیر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع تو ہے اگر مزاحمت کی جائے تو اس کا مطلب پارٹی کارکنوں کو جیلوں میں مزید مصائب اور آلام کا سامناکرنا پڑے گا۔ دوسر ے جب اسٹیبلشمنٹ نے میرے والد جیسے مضبوط رہنما کوبرداشت نہیں کیا توان کے لئے مجھ سے چھٹکارا پانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔

وقت کے ساتھ سیاست بھی تبدیل ہوتی چلی گئی اور مضبوط وراثت بھی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے 6؍ سالہ دور میں کرپشن کبھی ایشو نہیں رہا۔ بدترین مخالفین کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ بھٹو نے بھی اپنے مخالفین کو کبھی کرپٹ نہیں کہا لیکن آج معاملہ اس کےالٹ ہے۔

گزشتہ 20؍ سال کے دوران سیاست دانوں کے خلاف اکثر مقدمات کرپشن، کمیشن اور جانب داری برتنے کے حوالے ہی سے بنے ہیں۔ دنیا کے اس حصے میں شاید خاندانی سیاست کی جڑیں اب بھی مضبوط ہیں ۔ بھارت میں آنجہانی اندراگاندھی اورراجیو گاندھی کے بعد سابق حکمراں جماعت کو خاندانی ورثہ سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہے یہاں بھی پیپلزپارٹی بھی ایسی ہی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ بلاول کو بلاول بھٹو زرداری کی حیثیت سے آگے بڑھانا مشکل ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھٹو کا کوئی پیروکار، آزمودہ اور مخلص رہنما پارٹی چیئرمین یا شریک چیئرمین کیوں نہیں ہوسکتا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے دلوں اور ذہنوں پر حکمرا نی کی کیونکہ وہ ہمیشہ عوام سے جڑے رہے۔ جنہوں نے پہلے بھٹو اوربعد ازاں بے نظیر کو ووٹ دیئے جو اپنے والد کا و رثہ لے کر چلیں لیکن پھر پارٹی نے سمت کھودی۔ لوگ بھٹو کو چاہتے ہیں لیکن اب پارٹی کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں۔

یہ تاثر پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں موجود ہے جو کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کے مضبوط گڑھ رہے۔ بے نظیر کے قتل کے بعد 2008ء میں گو کہ پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی لیکن وہ زوال پذیر ہی رہے۔ آصف علی ز رداری حسن حکمرانی کی مثالیں قائم نہ کرسکے پارٹی کے رہنما آج اپنی سیاست کے بجائے کرپشن کے حوالے سے معروف ہیں۔ سندھ مختلف ہے اور صوبے میں پیپلزپارٹی کے مضبوط ہونے کیو جہ متبادل کے نہ ہونے کے ساتھ اس کے حامیوں کی پارٹی سے والہانہ وابستگی ہے۔

دیگر صوبوںمیں شکست کی حقیقی وجوہ تلاش کرنے کے بجائے الزامات کی آڑ لینے کی کوشش کی گئی کہ انتخابات میں ہیر پھیر ہوئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے کسی خوف یا دبائو میں آکر اصلاحات کے بھٹو ایجنڈے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کو ترک کیا۔

بھٹو، ان کی سیاست اورپالیسیوں سےاختلاف کا ہر کسی کو حق ہے اس کی جائز وجوہ بھی ہوسکتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان  میں ان کے پایہ کا رہنماہنوز پیدا نہیں کرسکا۔ ان کے بعد کیا کچھ ہوا، وہ تاریخ ہے لیکن پیپلزپارٹی کوئی سبق سیکھنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ بھٹو کی داستان اب شاید سندھ کو چھوڑ کر ملک کے عوام کے لئے کشش کا باعث نہ ہولیکن انہیں ایک تاریخ ساز شخصیت کے طور پرضرور یاد رکھا جائے گا۔