بلاگ
10 اپریل ، 2017

چنگ چی پر لکھی مزاحیہ تحریروں کا سنجیدہ پہلو

چنگ چی پر لکھی مزاحیہ تحریروں کا سنجیدہ پہلو

صبح صبح گھر سے دفتر آتے ہوئے میری نگاہ ایک چنگ چی کے پیچھے لکھی اس عبارت پر پڑی ۔ لکھا تھا ’کوئی جل گیا اورکسی نے دعا دی‘

عبارت پڑھ کر آپ ہی آپ ایک مسکراہٹ میرے لبو ں پر آگئی۔ میں سوچنے لگی کہ واقعی دنیا میں سب ہی لوگ توآپ کے حامی نہیں ہوسکتے۔ نہ ہی سب آپ کو محبت کرنے والے ہوتے ہیں ، کچھ لوگ حسد بھی کرتے ہیں ۔۔مگر اس بھلا چنگ چی سے کسی کو کیا حسد ہوسکتا ہے؟

میں رہ نہ سکی اور ڈرائیور سے یوں ہی پوچھ لیاکہ بھئی کیا کوئی آپ کی اس چنگ چی سے بھی ’جل ‘ سکتاہے؟

میرے غیر متوقع سوال پر ڈرائیو نے ایک لمحے کے لئے تیزی سے پلٹ کر مجھے دیکھا پھر بولا ’ یہ جو آج کل ٹریفک پولیس والے ہمارے ساتھ کررہے ہیں وہ حسد میں ہی تو کررہے ہیں۔انتظامیہ بھی چنگ چی سکون سے چلانے نہیں دیتی ۔۔روز روز نئے نئے قوانین بنارہی ہے۔ یہ سب ہماری حسد میں ہی تو ہورہا ہے۔‘

بے شک آپ کو ڈرائیور کی باتیں پڑھ کر ہنسی آرہی ہو لیکن کہہ وہ صحیح رہا تھا۔۔’کیا واقعی ہم نے ان کے چنگ چی کے چلنے یا نہ چلنے سے متعلق جو بھی فیصلے کئے ہیں وہ سوچ سمجھ کر اور اس کے مفاد کو بھی سامنے رکھ کر کئے ہیں یا نہیں۔‘



ایک مزاحیہ سی تحریر پڑھنے کے بعد میں نے غور کیا تو ہر دوسری ، تیسری چنگ چی پر مجھے کچھ نہ کچھ لکھا ضرور نظر آیا۔ جیسے ایک پر لکھا تھا ’ماں کی دعا۔۔۔جنت کی ہوا۔۔۔‘

مجھے خوشی ہوئی کہ وہ اپنی بساط بھر کی کامیابی کا کریڈٹ اپنی ماں کو دے رہا ہے۔ اس عبارت سے مجھے بھی یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ’کوئی بھی پیشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا‘

ایک اور جگہ لکھا تھا ’محنت کر ۔۔۔حسد نہ کر‘ ، ’ اللہ تجھے بھی دے گا‘۔۔حکومت اخلاقیات کے جس پیغام کو عام کرنے میں ہر سال کروڑوں روپے خر چ کرتی ہے اسے معمولی چنگ چی والے بلامعاوضہ دوسروں تک پھیلا رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک اور گاڑی پر لکھا تھا ’ تیری یاد آئی ۔۔تیرے جانے کے بعد۔۔۔‘‘غالباً یہ ایک پڑوسی ملک کا ایک مشہور گانا بھی ہے۔ پہلے تو مجھے ہنسی آئی کہ ایک بڑی تعداد میں لوگ اس میں روز انہ سفر کرتے ہیں ڈرائیور کو کس کس کی یا دآتی ہوگی۔۔کتنوں کی یاد آتی ہوگی۔۔۔‘‘

لیکن پھر اگلے ہی لمحے سمجھ آگیا کہ یہاں یادوں سے مراد کوئی شخصیت نہیں ’کسٹمرز ‘ ہیں ۔۔۔مسافر ہیں ۔۔۔‘

ان تحریروں کو پہلے میں عام لوگوں کی طرح پڑھتی اور ہنس دیا کرتی تھی مگر اب ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ تحریریں مزاحیہ ہونے کے باوجود ’نہایت سنجیدہ‘ پیغام دیتی ہیں۔ فقط ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے پڑھنے والا کتنی سنجیدگی سے لیتا ہے۔