10 اپریل ، 2017
”جب تک اپنی فلم نہیں بناوٴں گا کوئی کام نہیں دے گا“یہ فلم راستہ کا مکالمہ ہے جو ساحریعنی ”سمیر “ نے اپنے چاہنے والوں اور اپنے سے” چِڑنے“ والوں کو فلم کے ذریعے ہی دے دیا ہے۔”دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں“ایک جنھیں راستہ پسند آئی دوسرے جن کو راستہ پسند نہیں آئی۔‘‘
فلم ’راستہ‘ پر کتنے پیسے خرچ ہوئے کتنی اس فلم نے آمدنی کی یہ ابھی تک راز ہےلیکن یہ بات طے ہے کہ فلم نقصان میں نہیں گئی ہوگی کیونکہ فلم راستہ کے کپتان کو پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹراور ہیروسب کچھ ساحر لودھی تھے ۔فلم کی لوکیشنز پر بھی زیادہ پیسے خرچ نہیں ہوئے اور فلم کا بزنس اتنا برا نہیں رہا یعنی اگر ساحر نے فلم سے کمایا نہیں تو دوسروں کا پیسہ ڈبویا بھی نہیں۔اور یہی اس فلم کی سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ ابھی ٹی وی سے اس فلم کا بزنس باقی ہے۔ دوستو!ابھی فلم کی ریلیز کے دسویں دن بھی ایٹریم سینما پرتھیٹر آدھے سے زیادہ بھرا ہوا تھا۔
راستہ میں جھول بے حساب ہیں لیکن انٹر ٹینمنٹ بھی کم نہیں۔فلم کے ایک آئٹم سانگ کو ” ولگر“یعنی بیہودہ کہا گیا لیکن ایسے ہی ہیجان انگیز ڈانس” نامعلوم افراد“ اور” کراچی سے لاہور“ میں تھے۔ایک ہی قِسم کا ڈانس اور کپڑے مہوش حیات اورعائشہ عمر پر صحیح اور متیرا پر بیہودہ کیسے لگ سکتے ہیں؟فلم کے مکالموں کو اسی اور نوے کی دہائی کا بالی وڈ سینما کہا گیا لیکن ”ایکشن جیکسن “ کا ڈائیلاگ ”مائی وے یا اسکائی وے“ اور باڈی گارڈ کا ڈائیلاگ ” مجھ پر ایک احسان کرنا کہ مجھ پر کوئی احسان نہیں کرنا“کچھ زیادہ پرانے نہیں۔
’راستہ‘ ایک الگ ٹائپ کا سینما ہے جو شاید اس وقت اتنا کامیاب نہ بھی ہو لیکن کم از کم ٹی وی ڈراموں کو فلم کے نام سے پیش کرنے سے کئی گنا بہتر ہے۔ ’’راستہ‘‘، ”جوانی پھر نہیں آنی“اور“ایکٹر ان لا ء“ سے بہتر نہیں لیکن راستہ رنبیر کپور کی ”بے شرم“سلمان خان کی ”جے ہو“اجے دیوگن کی ”ایکشن جیکسن“ اوراکشے کمار کی ” جوکر “ جتنی بری بھی نہیں۔
راستہ دیکھنی ہے تو آپ کو دماغ گھر پر چھوڑ کر جانا ہوگا۔ ویسے ہی جیسے روہت شیٹی اور ڈیوڈ دھون کی فلموں میں چھوڑنا پڑتا ہے۔ ( ان دونوں کی فلموں کا بجٹ بہت زیادہ ہوتا ہے اور فلمیں ٹیکنیکل حوالے سے ساوٴنڈ بھی ہوتی ہیں)کیونکہ دماغ لے جانے والے کے ذہن میں جو سوالات ہوں گے وہ بھی ہم آپ کو ساتھ ساتھ بتائیں گے۔
سب سے بڑی بات ساحرکی ’راستہ‘ کسی فلم کی ”کاپی“ نہیں(’باہو بلی‘ بنانے والے ڈائریکٹر صاحب پر بھی کسی نے الزام لگادیا تھا کہ آپ کی فلموں میں جنگ بالکل ہالی وڈ اسٹائل میں ہوتی ہے اب وہ سو فیصد اوریجنل لگنے کیلئے کیا جنگ تلوار کے بجائے بیس بال کے بیٹ سے لڑواتے ، َسر پر تاج کے بجائے ہیلمٹ ہوتا اور زرہ بکتر کے بجائے ہاکی والے کیپر کی وردی اور سازو سامان کا استعمال کرنا پڑتا)۔ساحر خود شاہ رخ سے متاثر تھے ،ہیں اوررہیں گے ۔انھوں نے فلم میں کئی سینز بھی بالکل شاہ رخ کی طرح ان ہی فلموں سے لیکر فلم بند کروائے ۔
رجنی کانت کا” فولادی مکہ“ سب نے دیکھا تھا ساحر نے راستہ میں سب کو اپنا ” فولادی سینہ“ دکھایا۔کتنی گولیاں لگی سامنے سے لگی پیچھے سے لگی ہر بار ساحر یعنی سمیر پر وار بیکار۔کوئی ایسی بالی وڈ یا ہالی وڈ میں فلم نہیں آئی جس میں ہیرو یا اینٹی ہیر و کسی ولن کو بھر پور تیاری کے ساتھ مارنے گیا ہو ااور اس کے پستول میں صرف دو یا تین گولیاں موجود ہوں۔فلم کے کلائمکس میں ساحر اور شمعون کی لڑائی گن فائٹ سے شروع ہوتی ہے،پھر مارشل آرٹ اور کنگ فو آجاتے ہیں اور آخر میں مشہور محلہ لڑائی یعنی فری اسٹائل(دے مار ساڑھے چار) لیکن دی اینڈ پھر گولیوں سے ہی ہوتا ہے۔بیچ میں” میٹرکس“ والے ایکشن کاتڑکہ بھی ہے۔ساحر جب اچھے بچے سے ”ڈان“ بنتا ہے اور لوگوں کو گولیوں سے اڑاتا ہے، اتنے نیچرل انداز سے گولیاں چلاتے ہوئے آج تک کسی فلم میں نہیں دکھایا گیا ہوگا۔
یہ ساحر کی فلم میں ہی ہوسکتا تھا کہ جو ہیروئن نہیں لگتی اس کو ساحر پسند کرتے ہیں اور جو ڈاکٹر ہے وہ خودچل کر اس بیروزگار کے پاس آتی ہے اور آدھی فلم تک ساحر کی دوست ہی رہتی ہے۔ساحر کا کردار پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتا ہے۔ایک طرف اپنی محبت کیلئے ٹپوری اور انٹرویو میں کوالیفائڈ نوجوان بن جاتاہے۔ سر پرائز اتنے زیادہ ہے جب پہلے انٹرویو میں سمیر فیل ہوتا ہے تو وہاں لوگ ایکشن کی توقع رکھتے ہیں لیکن وہاں کامیڈی شروع ہوجاتی ہے۔دوسرے انٹرویو میں فیل ہونے کے بعد جب سب کو کامیڈی کا انتظار ہوتا ہے وہاں ڈرامہ شروع ہوجاتاہے۔ کہیں اتنی باریکی پر کام کیا گیا ہے کہ سمیر بَس کی چھت پر سوارہو کر سفر کرتا ہے یہاں تک کہ فلم میں رپورٹر سمیت سب کے پاس آئی فون ہوتا ہے لیکن ایماندار پولیس افسر کے پاس پرانا موبائل فون،بھابھی کی قبر سے مٹی کو شاپنگ بیگ(تھیلی) میں بھرنا بھی ماسٹر اسٹروک تھا۔ڈاکٹر صاحبہ کا رکشہ چلانے کا کہنا،سمیر کا رکشہ ڈرائیوربننا،بطور ویٹر شربت ممنوع کی ایک چسکی لینا اور دشمنوں کو مار کر پسینہ جھاڑنایہ سب سین اور اسٹائل دیکھنے والوں کو خوب پسند آئے۔
فلم ’راستہ‘ ایکشن فلم نہیں بلکہ ایکشن کامیڈی سسپنس مسٹری ڈرامہ ہے۔فلم کا دی اینڈ بھی” مسٹری“ پر ہی ہوتا ہے۔فلم سمیر سے شروع سمیر پر ختم ہوتی ہے۔فلم کے کلائمکس میں جب سب توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ گولی لگنے کے بعد سمیر کے فلیش بیک میں بھابھی ، بھیااور بھتیجی کی یادیں ہونگی وہاں بھی سرپرائز کا جھٹکا لگتاہے اور فلم کی ہیروئن اور دل فقیر کا غمگین ورژن آجاتا ہے۔
فلم کا میوزک اچھا ہے لیکن دو گانے دل فقیر اور مولا سپر ہٹ ہیں ۔مکالموں میں ”سلطان اشرفیوں میں تُلتے ہیں“سب سے الگ تھا باقی ”دو طرح کے لوگ“ والا مکالمہ تو بج بج کر ابھی تک بج رہا ہے۔سینما ٹو گرافی بھی اچھی ہے لیکن ساوٴنڈ اور آڈیو کے مسائل ہیں۔
’ راستہ‘ میں تسلسل کی کمی نہیں بلکہ” کَال“تھا بلکہ ”کنٹیوٹی“ نام کی کوئی چیز نہیں تھی اب یہ سینسر کی وجہ سے ہوا یا کیمرا مین،ڈائریکٹر یا ایڈیٹر ذمہ دار تھے۔مایا ایسی غائب ہوئی کہ پھر آئی ہی نہیں،ساحر کا بطور ویٹر ایک ”انسرٹ“،ولن کے گھر سے نکل کر اچانک گانا، پھر دل فقیر گانے سے پہلے سمیر اور ان کی ہیروئن کے درمیان مناظر پر سمیر کی کمنٹری بھی سمجھ میں نہیں آئی ۔
سمجھ میں تو شہر کے اتنے بڑے ڈان کا اتنا چھوٹا سا گھر اور دونوں بھائیوں کا سلطان کیلئے ایک ہی طرح کے ڈائیلاگ دہرانا بھی نہیں آیا۔سلطان کلائمکس میں سمیر کے کہنے پر رک بھی جاتا ہے اوربعد میں اپنے زخمی بھائی پر گولی بھی چلادیتا ہے شاید اسی لیے سمیر کے فلیش بیک میں بھائی نہیں ڈاکٹر آتی ہے۔ساحر نے ہیوی بائیک اتنی اچھی چلائی لیکن اپنے بھائی کی گولی لگنے والی خبر پر جان لگا کر بھی بہت آہستہ دوڑے۔رکشہ فورا ہی کرلیتے تو بہترتھا اور شاید اسپتال بھی شہر میں ایک ہی تھا جو اپنے دوست کوصرف” اسپتال“ آنے کا کہتے ہیں اور وہ پہنچ بھی جاتا ہے۔
ساحر کا بندوق چلانے کا انداز،پسینہ جھاڑنا، ہاتھ جھاڑنا، چشمہ پہننا اور پھینکنا اور پھر سب سے بڑھ کر ففٹی بائیک سے ہیوی بائیک تک کاسفر۔سب دیکھنے والوں کو بھایا ہے ۔کبھی رجنی کانت کے اسٹائل کا بھی ایسے ہی مذاق اڑایا جاتا تھا اِس وقت رجنی کانت بالی وڈ کے اسٹارز سے بھی بڑا ہے، عامر،سلمان، شاہ رخ اور امیتابھ سے بھی بڑابہت بڑا۔۔فلم راستہ لو بجٹ ضرور ہے لیکن ”چِیپ“ نہیں ۔
بالو ماہی میں بڑی گالی انگلش میں تھی تو نوٹس نہیں ہوئی راستہ کی دوگالیوں جو دراصل گالیاں بھی نہیں ہیں کو ایشو بنایادیا گیا۔ بمبینو میں اگر کسی نے ساحر کو گالی دی ہوگی تو نیو پلیکس میں بھی کسی نے تالیاں ضرور بجائی ہوں گی۔
ساحر نے کام کیا ہے تو تعریف بھی ہوگی اور تنقید بھی۔ساحر نے اپنے قد سے لمبی ہیروئن کو کاسٹ کیا جب واقعی اعتماد اتنا ہے تو اب چِلانا کیسا۔ساحر کوزبان سے نہیں کام سے جواب دینا ہوگا اپنا راستہ خود بنانا ہوگا”دوبارہ“ آنا ہوگا کیونکہ وہ ”ہیرو “ ہے اور ہیرو کبھی مرا نہیں کرتے۔