11 اپریل ، 2017
لاہور شہر کتنا قدیم ہے اس پر بہت لکھا گیا لیکن اس کا ذکر 982ءکی ایک تالیف ’حدود العالم‘ میں ملتا ہے لیکن جب شاہان مغلیہ نے اس کو اپنا پایہ تخت بنایا تو اس کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔
شہنشاہ اکبر نے اس شہر کے گرد 30فٹ اونچی فصیل بنوائی، 1812ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس فصیل کی مرمت کروائی اور اونچائی 15فٹ کر دی، انگریزوں نے فصیل گرا کر ایک مختصر دیوار پختہ کروا دی، اس تاریخی شہر کے 12دروازے ہیں، ایک چھوٹا دروازہ بھی ہے جسے موری دروازہ کہا جاتا ہے۔
دہلی دروازہ
اس دروازے کا رخ چونکہ دہلی کی طرف تھا اس لیے اس کو دہلی دروازہ کہا جاتا ہے، یہ مشرق کی سمت ہے اور لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی پاس ہے، مشہور زمانہ تاریخی مسجد وزیر خان بھی اسی دروازے کے اندر واقع ہے۔
اکبری دروازہ
یہ دروازہ مغل شہنشاہ جلاالدین محمد اکبر کے نام سے موسوم ہے، اکبر نے اس کے ساتھ غلہ منڈی بھی بنوائی جو آج بھی اس کے نام سے موسوم ہے۔
موتی دروازہ
اس کو موچی دروازہ بھی کہا جاتا ہے، یہ جنوب کی طرف واقع ہے، روایت کے مطابق یہ اکبری دور کے ایک ہندو فوجی افسر کے نام سے موسوم ہے جو تمام عمر یہاں تعینات رہا، سکھ دور میں اس کا نام موچی دروازہ پڑ گیا، تحریک پاکستان کے دوران اور بعد میں بھی اکثر جلسے اس دروازے کے باہر ہوتے رہے۔
شاہ عالمی دروازہ
یہ دروازہ شہنشاہ اورنگ زیب کے بیٹے شہزادہ محمد معظم شاہ عالم بہادر کے نام سے موسوم ہے جس کا 1712ء میں لاہور میں انتقال ہوا، اب یہاں بہت بڑی مارکیٹیں ہیں جہاں دنیا جہاں کی ہر چیز ملتی ہے۔
لوہاری دروازہ
اس کا اصل نام لاہوری دروازہ ہے ،غلط العام لوہاری دروازہ مشہور ہے، روایت ہے کہ محمود غزنوی کے دور میں راجہ جے پال چند ماہ تک یہاں محصور ہو کر لڑتا رہا، اس کے فرار ہونے کے بعد سلطان محمود نے لاہور شہر کو آگ لگا دی جب اس کے جانشین ایاز نے لاہور کو دوبارہ تعمیر کیا تو سب سے پہلے یہی دروازہ تعمیر کروایا اور یہیں لاہوری منڈی بنی۔
موری دروازہ
یہ سب دروازوں سے چھوٹا ہے، یہ لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان میں واقع ہے، سکھ دور میں اس دروازے سے شہر کا کوڑہ کرکٹ باہر نکالا جاتا تھا۔
بھاٹی دروازہ
یہ دروازہ قوم بھاٹ سے منسوب ہے، جو ایاز کے دور میں یہاں آباد ہو گئی تھی، یہ دروازہ پرانے لاہور کے مغرب کی طرف واقع ہے، یہاں سے شاہی مسجد کو سیدھا راستہ جاتا ہے، بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں ہے جہاں بڑے نامور حکماء رہا کرتے تھے۔
ٹکسالی دروازہ
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ قدیم دور میں اس دروازے کے اندر ٹکسال تھی جہاں سکوں کو ڈھالا جاتا تھا، اسی کے اندر مسجد ٹکسالی بھی تھی، یہیں بدنام زمانہ ٹبی یا ہیرا منڈی ہے۔
روشنائی دروازہ
یہ دروازہ شاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان واقع ہے، کسی زمانے میں یہاں شاہی امراء اور روساء کے محلات ہوا کرتے تھے، ان محلات میں بڑے بڑے چراغ روشن کیے جاتے تھے، اس لیے اس کا نام روشنائی دروازہ پڑ گیا، یہ دروازہ اصل میں قلعہ کا دروازہ ہے، یہ دروازہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے قدیم ترین دروازہ ہے۔
مستی دروازہ
سید محمد لطیف کے مطابق اس کا نام مسجدی دروازہ تھا کیونکہ یہاں شہنشاہ اکبر کی والدہ مریم زمانی کی مسجد ہے، لیکن کنہیا لال کہتے ہیں کہ یہ دروازہ بھی ایک شاہی ملازم مستی بلوچ کے نام سے موسوم ہے۔
کشمیری دروازہ
اس دروازے کا رخ چونکہ کشمیر کی طرف ہے اس لیے کشمیری دروازہ کہلایا، شاہان مغلیہ اکثر یہاں سے کشمیر کے لیے روانہ ہوا کرتے تھے، خصوصاً شہنشاہ جہانگیر کو لاہور اور کشمیر دونوں سے عشق تھا، کشمیر سے واپسی پر اس کا انتقال ہوا، مرنے سے پہلے شہنشاہ نے لاہور دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی۔
شیرانوالہ یا خضری دروازہ
اس کا پرانا نام خضری دروازہ ہے، کبھی دریائے راوی یہاں سے گزرتا تھا اور کشتی یہیں سے ملتی تھی، حضرت خضر کی مناسبت سے اس کا نام خضری دروازہ رکھا گیا، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں دو شیروں کے پنجرے یہاں رکھے جاتے تھے انگریزوں نے ان پنجروں کو اٹھوا دیا لیکن اس کا نام شیرانوالہ دروازہ پڑ گیا، یہاں خضری محلہ آج بھی موجود ہے۔
ذکی یا یکی دروازہ
یہ دروازہ پیر ذکی شہید کے نام سے موسوم ہے جن کی دو قبریں ہیں، ایک میں ان کا سر اور دوسری میں دھڑ دفن ہے، یہ بزرگ شہر کے محافظ تھے، اس دروازے کو اب یکی دروازہ کہا جاتا ہے۔
صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں