بلاگ
19 اپریل ، 2017

ہیں کواکب کچھ، نظرآتے ہیں کچھ

ہیں کواکب کچھ، نظرآتے ہیں کچھ

تخت لاہور کی سڑکوں پر لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہونے والا احتجاج کیا لوگ بس اسی لیے کر رہے ہیں کہ گرمی کی شدت نے ان کے دماغ کی گرمی میں بھی اضافہ کر دیا ہے یا پھر کہانی کچھ اور ہی ہے۔

میں چونکہ پیدائشی لاہوری ہوں اور اس شہر کے باسیوں کا مزاج سمجھتا ہوں اس لیے بھی مجھے یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہو رہی کہ صرف اتنی سی بات پر لاہوریے سڑکوں پر آ جائیں گے اور وہ بھی اپنے میاں صاحب کے خلاف۔

ابھی میں اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک میری 13سالہ بیٹی  فاطمہ کی غصے میں ڈوبی آواز آئی کہ ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کیوں بار بار انکل نواز شریف کو برا بھلا کہہ رہے ہیں یہ لوگ، کیوں بھول گئے ہیں کہ 3سال سے اتنا سکون رہا گرمیوں میں بھی بہت کم لائٹ جاتی رہی، سردیوں میں تو گئی ہی نہیں، ایک دو دن لائٹ کیا چلی گئی تو یہ لوگ ٹی وی پر ایسی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔

پھر وہ مجھ سے کہنے لگی کہ ’’بابا! آپ کو یاد ہے ناں کہ چار، پانچ سال پہلے گرمی ہو یا سردی 15 گھنٹے لائٹ جاتی تھی، یو پی ایس بھی نہیں چلتا تھا، گیس بھی نہیں آتی تھی، ہمیں سی این جی بھی نہیں ملتی تھی، اس مرتبہ تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا تو پھر یہ سب انکل نواز شریف کو کیوں برا کہہ رے ہیں؟‘‘

میں سوچ میں پڑ گیا اور رب کا فرمان یاد آیا کہ بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے اور ذرا سی مصیبت پر گھبرا جاتا ہے، آخر اچانک کیسے اتنا بڑا بحران کیسے پیدا ہو گیا یا کر دیا گیا، اگر کیا گیا تو کس نے کیا اور کیوں؟ لوگ سڑکوں پر آ گئے، میڈیا نے حسب روایت شریف برادران کے چند بیانات کے کلپس کو بار بار چلا کر لوگوں کو جذباتی بخار میں مبتلا کر ڈالا اور قوم ٹھیک اسی طے شدہ ایجنڈے پر چل دی جو پہلے سے سیٹ تھا، ساری اچھی باتیں بھول گئی، تین دن کی کوتاہی تین سال کی محنت نگل گئی اور یہی ہمارا بحیثیت قوم اجتمائی رویہ ہے، ہم کسی کی ایک کوتاہی کو تو یاد رکھتے ہیں اور ہزار اچھی باتیں بھول جاتے ہیں۔

سارے ملک کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی احتجاج کروایا گیا اور ساتھ ہی پاناما کیس کے فیصلے کی تاریخ بھی آ گئی، پاکستان مسلم لیگ ن نے گزشتہ روز تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں کو چکوال کے ضمنی انتخابات میں بڑے مارجن سے شکست دی، یہ ہے گراؤنڈ رئیلیٹی مگر چینلز پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک حشر بپا ہے ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔

عجیب اتفاق ہے کہ پاناما فیصلے کے چند روز پہلے ملک میں بد ترین لوڈ شیڈنگ کا اچانک آغاز ہو گیا، میں تاریخ کا طالب علم ہوں اس لیے واقعات کو اپنی نظر سے دیکھتا ہوں، سابق آئی جی پنجاب محترم سردار محمد چوہدری نے 1999ء کے فوجی انقلاب کے بعد بڑی محبت اور شفقت سے  اپنی کتاب عنایت فرمائی جس کا عنوان تھا نواز شریف ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر، آج 17برس بعد  فاطمہ کی باتوں سے اچانک میرا دل چاہا کہ اس کتاب  کی ورق گردانی کروں،نواز شریف آج بھی انہی بحرانوں میں گھرے دکھائی دیے جن میں 17برس پہلے تھے۔

میں سوچتا رہا کہ اندلس پر مسلمانوں نے 8سو برس حکومت کی جب آپس میں نفرت پالی اور اتحاد ختم ہوا تو نتیجہ یہ ہوا کہ 1492ء میں آخری سلطان روتے ہوئے قصر الحمرا کو دیکھتا رخصت ہوا اور مراکش کی سڑکوں پر بھیک مانگتا دنیا سے رخصت ہوا،عیسائی بادشاہ نے سارے وعدے ایک طرف رکھتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ یا عیسائی ہو جاؤ یا اندلس چھوڑ دو۔

آہ! آج وہاں مسلمان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے اور آج کا ہندو کیا کہہ رہا ہے؟ یا تو ہندو ہو جاؤ یا ہندوستان چھوڑ دو اور ہم پاکستانی کیا کر رہے ہیں، چنگیز خان انسان نہیں خدا کا قہر تھا، ساری سلطنت خوارزم شاہی روندنے کے بعد جس وقت اس کا پوتا ہلاکو خان بغداد کی تباہی کے لیے دروازے پر کھڑا تھا تو بغداد کے لوگ فقہی مسائل میں الجھے ہوئے تھے جیسے آج ہم فرقہ واریت،علاقائی تعصبات، فرقہ پرستی اور نظریہ پاکستان پر مختلف بحثوں میں الجھے ہیں، پاناما جو امریکا کی ایک طفیلی اسٹیٹ ہے جس طرح نیپال بھارت کی لیکن ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی یا ہم سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے کہ ہم گریٹ گیم کا حصہ بن چکے ہیں اور عالمی طاقتوں نے ہمارے لیے کیا سوچ رکھا ہے،ابھی تو آغاز ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کے مصداق اس خطے میں نیو ورلڈ آرڈر کے ثمرات کے اگلے مرحلے کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔

کانگریس کے سینئر لیڈر اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیراحمد پٹیل نے مساجد سے لاوڈاسپیکر پر صبح صبح ہونے والی اذان کے سلسلے میں مقبول بھارتی  گلوکار سونو نگم کے اعتراض کی حمایت کی ہے، مسٹر پٹیل نے آج ٹویٹ کر کے کہا کہ ’’اذان نماز کا اہم حصہ ضرور ہے لیکن جدید تیکنیکی والے آج کے دور میں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے‘‘، اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر اذان کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو گیا اور آج اخبارات میں بھی اس سلسلے میں خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔

اس سے پہلے ہندو انتہا پسند گائے کے معاملے پر مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں، کیا اس کے بعد بھی دو قومی نظریے کی کوئی جسٹی فیکیشن چاہیے؟ اذان کے حوالے سے اسرائیل میں بھی قانون منظور کیا گیا اور ہم پاناما، پاناما کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ،دشمن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور ہم بغداد اور غرناطہ کے مسلمانوں کی طرح فضول کی بحثوں میں الجھے اپنا وقت اور توانائیاں برباد کر رہے ہیں۔

میں تاریخ کا صرف یہ سبق یاد کروانا چاہتا ہوں کہ بغداد کی تباہی کی اثرات ہم آج تک سائنسی و عقلی، تنزلی اور  پستی کی صورت بھگت رہے ہیں اور سقوط غرناطہ کے بعد ہم 8سو برس حکومت کرنے کے بعد بھی اجنبی ٹھہرے، یہ سچ ہے کہ قدرت کبھی کسی کو معاف نہیں کیا کرتی۔