19 اپریل ، 2017
معروف قانون داں جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں اداروں کی ناکامی پر کچھ نئے قوانین اور ترامیم پر بات کی جاسکتی ہے، وزیراعظم کو فوری ہٹایا نہ بھی جائے ہمہ جہتی کمیشن قائم کیا جاسکتا ہے۔
جیو نیوز کے سینئر رپورٹر طارق معین صدیقی سے بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدن کا کہنا تھا کہ ایسی آبزرویشن کا امکان ہے کہ سپریم کورٹ کے بعد اب کمیشن کی فائنڈنگز تک وزیراعظم کسی اور کو اپنی جگہ نامزد کردیں اور کلیئرنس کے بعد اپنا عہدہ سنبھال لیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم از کم اس طرح کا فیصلہ آسکتا ہے کہ بڑے بڑے معاملات میں ادارے فیل ہوجاتے ہیں، جیسےایف آئی اے، نیب فیل ہوگئی تو سپریم کورٹ کچھ ترامیم اور نئے قوانین کی بات کرسکتی ہے تاکہ بڑے بڑے لوگوں کی مزاج پرسی بھی ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں وزیراعظم کو شاید فوری فارغ نہیں کیا جائے گا، شاید ہمہ جہتی کمیشن بنایا جائے جو سپریم کورٹ کو جوابدہ ہو، جس میں حاضر سروس ججز شامل ہوں، اس کے لیے ٹائم فریم متعین کیا جاسکتا ہے کہ کتنے عرصے میں اپنی فائنڈنگز سپریم کورٹ کو پیش کرے۔
جسٹس وجیہہ نے کہاکہ پتہ نہیں ایسا ہو یا نہ ہو، میں سمجھتا ہوں بہت ضروری ہے کہ کوئی آبزرویشن اس طرح کی دی جائےکہ وزیراعظم سے کہا جائے سپریم کورٹ کے بعد اب یہ معاملہ کمیشن کے پاس ہے تو اس دوران آپ کی سیاسی جماعت جو اکثریتی جماعت ہے اس میں کسی اور کو پارٹی لیڈر نامزد کردیں جب تک کمیشن آپ کو کلیئرنہ کردے،یہ ایک تجویز ہوسکتی ہے ہوسکتا ہے آرڈر کی شکل میں نہ ہو۔
اس طرح ہوا تو دور رس نتائج ہوں گے،وزیراعظم اس پر عمل نہیں کرتے تو سیاسی چہرہ خراب ہوگا اور آئندہ انتخابات میں لوگوں کو جوابدہ ہوں گے۔
جسٹس وجیہہ نے کہاکہ اس طرح کے فیصلے میں نہ کسی کی ہار ہوگی نہ جیت ،اس میں قانون اور ریاست کی فتح ہوگی اب کیا فیصلہ ہوگا وہ میں نہیں کہہ سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں اخلاقی پہلو پر بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ ایک حکومت کا اہم رکن ہو اور اس پر سنجیدہ الزامات آجائیں تو اسے استعفیٰ دے کر الگ ہوجانا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ عدالتوں سے کلئیر ہونے کے بعد دوبارہ آئوں گا،اخلاقی طور پر صورت حال یہ ہےکہ وزیراعظم کو روز اول سے مستعفی ہوجانا چاہیے، جو بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملکوں میں نہیں ہوتا لیکن اگر آپ اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں تو ایسا ہونا چاہیے۔