پاکستان
17 مئی ، 2017

تفتیش کاروں کی نظریں پی آئی اے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ پر

پی آئی اے کی پرواز سے لندن میں ہیروئن برآمدگی کے معاملے میں تفتیش کاروں کی نظریں پی آئی اے کی انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ پر لگ گئیں۔

طیارہ ماہانہ چیکنگ کے لیے 8مئی کی صبح 9 بجے سے9مئی کی صبح ساڑھے4بجے تک قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے انجینئرنگ ہینگر میں کھڑا رہا تھا۔

اسلام آباد سے لندن جانے والی پی آئی اے کی پرواز PK-785 کی چھت سے ہیتھرو ایئر پورٹ پر مبینہ طور پر ہیروئن برآمد ہوئی ۔

پاکستان کی بدنامی کا باعث کون بنا؟ہیروئن کس نے چھپائی ؟کس کی تھی؟کس نے وصول کرنی تھی؟اس حوالے سے پاکستان میں غیر اعلانیہ تحقیقات کا عمل شروع کر دیا گیا ۔

کسٹم انٹیلی جنس کی ابتدائی رپورٹ میں کسی مسافرکے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار دے دیا گیا ہے،جتنی محنت سے اور جتنی مشکل جگہ پر ہیروئن چھپائی گئی تھی،یہ کسی ماہر کا ہی کام ہو سکتا ہے،جس میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے، اسی لیے تفتیش کاروں کی توجہ کا مرکز اب پی آئی اے کا انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ہے۔

’جیو نیوز‘ کی حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق اس طیارے کو ماہانہ چیکنگ کے لیے 8 مئی کو پی آئی اے انجینئرنگ کراچی کے ہینگرپر 19 گھنٹے کھڑا رکھا گیا۔

شک کیا جا رہا ہے کہ شاید اسی دوران جہاز میں ہیروئن چھپائی گئی کیوں کہ دوسرے اسٹیشنز پر طیارے کو زیادہ دیر تک ایئرپورٹ پر نہیں روکا جاتا، اس لیے اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ جہاز کے کسی حصے کو کھول کر کامیابی سے کوئی چیز چھپائی جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ ہر طیارے کے لیے الگ اور مخصوص اوزار ہوتے ہیں جو کسی دوسرے طیارے کے کسی حصے کو کھولنے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے، کسی دوسرے ملک میں بھی متعلقہ اوزاروں کے بغیر جہاز کے کسی حصے کو نہیں کھولا جا سکتا۔

فلائٹ ریکارڈ کے مطابق پی آئی اے کے طیارے نے انجینئرنگ کلیئرنس کے بعد جدہ، مانچسٹر اور کوالالمپور کی بین الاقوامی پروازیں کیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ6بین الاقوامی پروازوں کے دوران12مرتبہ چیک ہونے پر طیارے سے ہیروئن برآمد کیوں نہ کی جا سکی؟

پاکستان میں کسی بھی طیارے کو اڑان سے قبل اے این ایف اور کسٹم کی جانب سے سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرنا ہوتی ہے، اے این ایف اس عمل میں تربیت یافتہ کتوں کی مدد بھی حاصل کرتی ہے لیکن اس دوران بھی ہیروئن کیوں نہ پکڑی جا سکی؟

کیا اے این ایف نے اپنا کام کیا ؟کیا طیارے کی بھر پور چیکنگ کی گئی یا نہیں؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذموم دھندے میں ملوث گروہ کے ارکان برطانیہ میں بھی جہاز میں سوار ہو کر ہیروئن نکال سکتے ہیں؟

پی آئی اے کے اس طیارے کے عملے کے 16 افراد میں سے کیپٹن سید حامد عباس گردیزی پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں ، باقی 15 ابھی برطانیہ میں ہی موجود ہیں۔

اڑتالیس گھنٹے گرزنے کے باوجود عملے کو نہ تو چارج کیا گیا ہے نہ ہی ان کے پاسپورٹ واپس کیے جا رہے ہیں۔

عملے کے ارکان بالخصوص خواتین ارکان اور پاکستان میں ان کے اہل خانہ شدید پریشان ہیں۔

عملے کے ایک رکن نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ جہاز کے کپتان کا اپنے عملےکو چھوڑ جانا مایوسی کا باعث بنا ہے۔

مزید خبریں :