05 جون ، 2017
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے سینٹ میں بیان جاری کیا کہ جنرل راحیل شریف اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ ہیں تاہم اسلامی عسکری اتحاد کے دائرہ کار کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی افواج سعودی عرب سے باہر نہیں جائیں گی اور یہ تاثر ٹھیک نہیں کہ اسلامی عسکری اتحاد ایران پر حملہ کرے گا۔
لیکن اس کے برعکس امریکا عرب اسلامی کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے شاہ سلمان کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو تنہا کیا جائے گا، تہران دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے کہا کہ ایران دہشت گردی کا مرکز ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی شاہ سلمان کے بیانات کی روشنی میں سرتاج عزیز کا بیان محضکہ خیز لگتا ہے۔ امریکہ عرب اسلامی کانفرنس میں دو ہی تقریریں اہمیت کی حامل تھیں اور وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے شاہ سلمان کی تقریرں تھیں۔ باقی 53 ملک تو صرف تقاریر سننے آئے تھے، انہی میں ایک ہمارے وزیراعظم نواز شریف موجود تھے جن کی تقریر لکھی کی لکھی ہی رہ گئی کیونکہ ان کو بولنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
امریکی صدر اور شاہ سلمان کی تقاریر کا مرکزی نقطہ ایران رہا۔ ان کے بیانات نشاندہی کررہے ہیں کہ امریکا اسلامی عسکری اتحاد سے صرف سعودی عرب کو ہی نہیں بلکہ 54 اسلامی ملکوں کو ایران سے لڑوانا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں متوازن پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن دوسری جان پاکستان کا پڑوسی ملک اس اسلامی عسکری اتحاد کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے اور جب اس عسکری اتحاد کا سربراہ پاکستانی جرنیل ہو تو علاقے میں توازن کس طرح برقرار رہ سکتا ہے؟
مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ داعش اور القاعدہ سے ہے لیکن امریکا عرب کانفرنس میں اس پر سرسری بات کی گئی ہے ۔
میرے خیال میں اس اتحاد میں مسلم امہ کو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف بات کرنی چاہیے تھی لیکن اس کانفرنس میں یہ بات ایجنڈے میں ہی شامل نہیں تھی۔
اگر ہم ماضی کو دیکھیں تو ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ ماضی میں القاعدہ بنائی گئی اور افغانستان کو تباہ کرکے وہاں بھارتی اثر و رسوخ کو مضبوط کیا گیا اور اب وہاں سے مسلسل واحد مسلم ایٹمی پاور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ہزاروں فوجی اور شہری شہید ہوئے، اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا اور معاشی طور پر بھی ملک بری طرح متاثر ہوا۔ اسی طرح کویت عراق جنگ کروائی گئی اور بعدازاں بغیر کسی تصدیق اور ثبوتوں کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا الزام لگا کرعراق پر حملہ کرکے وہاں تباہی پھیلائی گئی۔ اب قبول بھی کیا جا چکا ہے اور امریکا کی جانب سے معافی بھی مانگی جا چکی ہے عراق کے پاس ایسے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔
کرنل قذافی امریکا مخالف تھے، انہیں مار کر لیبیا کو بھی تباہ کردیا گیا۔ اب داعش سامنے آگئی ہے اور شام بھی تباہ ہو چکا ہے۔
تمام اسلامی ممالک بلخصوص پاکستان کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ترکی کو بھی ایران عراق جنگ اور پاکستان کے افغانستان جنگ کا حصہ بننے سے سبق سیکھ کر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہر مسلم ملک کو فرقہ واریت جیسے فتنے کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
اب سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف مذکورہ عسکری اتحاد کی قیادت چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنی صداقت ہے لیکن ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف ایک پرفیشنل سپاہی اور بڑے سپہ سالارہیں، وہ حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ درست کیا اور دہشت گردی سے کس طرح نمٹنا ہے۔
مگر بحیثیت واحد ایٹمی طاقت ہمیں اسلامی ممالک کو کمزور اور تباہ کرنے کی سازشوں کو شامل ہونے کے بجائے مسلم دنیا کو متحد کرکے انہیں مضبوط کرنے کی جانب جانب بڑھنا چاہیے۔
سینئر صحافی رئیس انصاری، جیو نیوز کے لاہور میں بیورو چیف ہیں۔ وہ سیاست اور سماجی مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور انہیں ان موضوعات پر لکھنا پسند ہے۔