10 جون ، 2017
2018 کے عام انتخابات میں ایک سال باقی رہ گیا ہے اور 40 برس میں پہلی مرتبہ سیاست بھٹو مخالف اور بھٹو حامی کے گرد نہیں بلکہ شریف حامی اور شریف مخالف کے گرد گھومے گی خاص طور پر پنجاب میں جہاں پاکستان مسلم لیگ ن کا 1984 سے بہت مضبوط کنٹرول ہے۔
کیا عمران خان کا بڑھتا ہوا مقبولیت کا گراف شریف خاندان کے لئے تشویش کا باعث ہےجن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں 70 کی دہائی کے آخر میں بھٹوز کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے سیاست میں لایا گیا تھا۔
مرحومہ بے نظیر بھٹو انتہائی مقبولیت کے باوجود تین وجوہات کے باعث کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکیں۔ (1) اسٹیبلشمنٹ نے شریف خاندان کی حمایت کی، شریف خاندان کے زیر قیادت اسلامی جمہوری اتحاد کی حمایت کر کے (2) بے نظیر نے پنجاب کو اپنا سیاسی مرکز نہیں بنایا
(3) شریف خاندان کی جانب سے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے انہیں پنجاب کی سیاست میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ تنقید کے باوجود ’’موٹروے اور میٹرو‘‘ نے پنجاب کی مڈل کلاس کو اپنی جانب راغب کیا۔
عمران خان ایک طویل سفر کر کے اس حیثیت میں آگئے ہیں کہ اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ شریف خاندان کے مضبوط گڑھ پنجاب میں اپ سیٹ کرنے کا ان کے پاس اچھا موقع ہے۔ عمران کی مقبولیت کی وجوہات یہ ہیں۔
(1)نئے ووٹرز خاص طور پر نوجوان، خواتین اور یہاں تک کہ وہ خاندان بھی جنہوں نے 2013 سے قبل کسی انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا۔ (2) بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاست کا زوال (3) عمران خان کی مسٹر کلین کی شہرت اور آزمودہ سیاستدان نہ ہونا۔
عمران خان کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کرپشن کو قومی مسئلہ بنایا اور وہ کلین سوئپ کے لئے اس قدر پراعتماد کبھی نہیں رہے جتنے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس میں فیصلے کے بعد ہیں، وہ بالکل درست طور پر کرپشن کو قومی مسئلہ بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ لیکن سیاست محض مسائل اور نظریات کا ہی معاملہ نہیں ہے، اس میں مہارت اور حکمت عملی کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔
عمران اور ان کی پی ٹی آئی کے پاس موقع ہے بشرطیکہ وہ اپنے کارڈ اچھی طرح کھیلیں اور وہی غلطی نہ دھرائیں جو انہوں نے 2013 میں کی تھی۔ 2013 سے کچھ سبق لیتے ہوئے انہوں نے نئے، نوجوان اور صاف ستھرے چہرے کے حامل افراد کے ذریعے راتوں رات تبدیلی کے رومانس کو ترک کر دیا ہے۔
وہ اب روایتی طور پر منتخب ہونے کے قابل افراد تلاش کر رہے ہیں تاکہ پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں جیت سکیں۔ اس میں خطرے کا ایک عنصر بھی موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی اور صوبائی وزیروں اور مشیروں کو قبول کرنے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ایک اور پیش رفت کے طور پر انہوں نے پارٹی کے انتخابات کے قواعد میں بڑی تبدیلی کی ہے تاکہ پارٹی میں کسی بڑی تقسیم کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ لیکن 2013 کے برعکس 12 جون کے الیکشن کے لئے پارٹی میں بہت زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔
پارٹی کے کچھ بانی ارکان بھی جیسے حامد خان جو پارٹی کے آئین کے مصنف بھی ہیں اس ریس میں موجود نہیں تھے۔ عمران کی سیاست میں یہ دو بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہ اقدامات درست ہیں یا نہیں ان کے لئے سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی حکمت عملی میں تبدیلی ان کے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے اپروچ کے دعوے کے برعکس ہے۔
ان کے مرکزی حریف پاکستان مسلم لیگ ن یا شریف خاندان جو پنجاب اور مرکز میں سخت کنٹرول رکھنے کے باوجود اب معاملے کی حدت محسوس کرنے لگا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ پہلا موقع نہ ہو کہ جب وزیراعظم نواز شریف یا مسلم لیگ ن احتساب کا سامنا کر رہی ہو، اگر ہم سابق صدر پرویز مشرف کے 9 برس پر محیط دور کو بھی دھیان میں رکھیں لیکن پارٹی اور خاندان نے اس سے قبل آزاد عدلیہ کے سامنے ایسی شرمندگی کا کبھی سامنا نہیں کیا کہ جس کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کو بھی لڑنا پڑا ہو۔
یہ بھی پہلا موقع ہے کہ وہ اپنے ہی دور میں احتساب کا سامنا کر رہے ہیںاور اگر جے آئی ٹی نے وزیرا عظم اور ان کی بیٹی مریم نواز کو طلب کیا تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ وزیراعظم اور ان کے بچے اپنی ہی حکومت میں عدالتی تحقیقات سے گزر یں گے۔ جمہوری نظام میں اس کا اپنا ایک فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا طویل سیاسی کیریئر خراب بھی ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ ن ا ب بھی فائدے میں ہے کیونکہ یونین کونسل کی سطح تک اس کی مضبوط تنظیم ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی بلدیات میں اسے بڑی فتح حاصل ہوئی۔ عام طور پر سیاسی سروے زیادہ قابل بھروسہ نہیں ہوتے لیکن لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آج کوئی شریف خاندان کے لئے سنجیدہ چیلنج ہے تو وہ عمران خان ہیں۔
یہاں تک کہ پاکستان مسلم لیگ کے رہنما بھی اپنی نجی گفتگو میں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ عمران خان پنجاب میں کامیابی کے لئے کس قسم کی ٹیم تلاش کر رہے ہیں۔ ان کی جارحانہ سیاست نے انہیں اپنی رفتار برقرار رکھنے میں بہت مدد دی ہے لیکن ان کی سب سے بڑی قباحت ان کے نمبر دو اور تین ہیں، جن میں پارٹی میں بھی اتفاق نہیں ہے جس کی وجہ سے عمران خان کو پنجاب میں مسائل کا سامنا ہے۔
اس وقت وہ پنجاب میں تین اہم شخصیات پر انحصار کر رہےہیں۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور علیم خان۔ تینوں ان کے پینل کا حصہ ہیں۔ ان کی بنیادی ٹیم میں چوہدری سرور، اعجاز چوہدری یہاں تک کہ محمود رشید بھی نہیں ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی چھوڑنے کے کئی ماہ کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ عمران خان اور قریشی دونوں کے لئے ایک درست انتخاب تھا۔ ان کا نہ صرف جنوبی پنجاب میں مضبوط حلقہ تھا بلکہ اندرون سندھ بھی ان کے بطور ’’پیر‘‘مرید موجود ہیں۔
قریشی جلد ہی عمران خان کے بعد پی ٹی آئی میں دوسرے طاقتور آدمی بن گئے لیکن پی ٹی آئی میں ان کے دیگر طاقتور رہنماؤں سے اختلافات ہیں۔ شاہ محمود سے بھی زیادہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے سب سے زیادہ نزدیک جہانگیر ترین ہیں۔
اندرونی اختلاف سے گریز کرنے کے لئے عمران خان نے دونوں کو اپنے پینل میں ایک ہی پوزیشن پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔دونوں رہنماؤں کو یہ ذمہ داری دی گئ ہے کہ وہ پنجاب میں منتخب ہونے کے قابل لوگوں کو پارٹی میں شامل کرائیں کیونکہ پی ٹی آئی کے لیڈر جانتے ہیں کہ اسلام آباد کو جانے والا راستہ لاہور سے ہو کر گزرتا ہے۔
عمران، شاہ محمود اور جہانگیر ترین اب تک پیپلز پارٹی کو تو نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کو نہیں توڑ سکے۔ پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں مین صمصام بخاری، راجہ ریاض، فردوس عاشق اعوان، غضنفر گل اور گوندل برادران شامل ہیں لیکن عمران خان پنجاب میں پیپلز پارٹی کے تین مضبوط اور صاف گو ارکان چوہدری اعتزاز احسن، ندیم افضل چن اور قمر زمان کائرہ جیسوں کے خواہش مند ہیں۔
اس ہفتے کے اوائل میں پیپلز پارٹی کے دو مزید رہنماؤں گوندل برادران نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ نذر گوندل پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں وفاقی وزیر تھے جبکہ ان کے بھائی ایم این اے تھے۔
پیپلز پارٹی بدترین انداز میں متاثر ہوئی ہے کیونکہ پنجاب میں اس کے لیڈر اور کارکن کم ہوتے جارہے ہیں اور پرانے رہنماؤں یوسف رضاگیلانی، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن یا اعتزاز احسن کے لئے کام مزید مشکل ہوگیا ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے مزید کئی رہنما بھی پی ٹی آئی کی قیادت خاص طور پر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سے رابطے میں ہے اور امکان ہے کہ وہ جلد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔
پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی لوگ منتخب ہونے کے قابل افراد کی حمایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی عمران خان شریف خاندان کے طاقت کے مرکز کو توڑنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسے لوگوں کو پارٹی میں لینا چاہیے اور جب وہ ایک مرتبہ اقتدار میں آجائیں تو نظام بھی بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
دیگر کچھ کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان الیکشن میں منتخب ہونے کے قابل افراد کے ساتھ شرکت کرتے ہیں تو ن لیگ کو فائدہ ہوگا کیونکہ شریف خاندان اور مسلم لیگ ن زیادہ بہتر
حکمت عملی بناتے ہیں اور زیادہ بہتر امیدوار لاسکتے ہیں۔
اگر عمران خان نوجوان اور پی ٹی آئی کے پرعزم رہنماؤں کا ساتھ دیتے ہیں تو وہ زیادہ متحرک اور پرعزم ہوں گے۔ دیگر جماعتوں سے رہنماؤں کو قبول کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بشرطیکہ وہ کرپشن کو بوجھ اپنے ساتھ نہ لائیں۔
متنازع افراد کو، جو ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہوں،قبول کرنے کا ایک خطرہ یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو بحران کے دوران چھوڑ سکتے ہیں۔ عمران خان نے تقریبا ہر حلقے میں اپنا مضبوط ووٹ بینک تخلیق کیا ہے۔
یہاں تک کہ انہوں نے کراچی کے حلقوں میں ایم کیو ایم میں بھی راستے بنا لیے تھے۔ اگر ان کی جماعت 2013 کے انتخابات میں 80 لاکھ ووٹ لے سکی تو یہ ان نوجوانوں، خواتین اور خاندانوں کی وجہ سے ممکن ہوا جو صرف عمران خان کی وجہ سے پہلی مرتبہ پولنگ اسٹیشن تک آئے۔
لہذا اس پر حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان منتخب ہونے کے قابل افراد کی تلاش میں کیوں ہیں جب کہ پی ٹی آئی نہ صرف نشستوں کی تعداد بلکہ ووٹوں کے لحاظ سے بھی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ لہٰذا عمران خان نے مسلم لیگ ن کے الیکٹ ایبل پولیٹکس کے مضبوط پوائنٹ کو کھیل کر ایک اور خطرہ مول کیا ہے۔
کیا وہ 2018میں پاکستان میں فتح حاصل کرنے کے لئے پنجاب میں کامیاب ہوسکیں گے؟