23 جون ، 2017
عیدالفطر کے بعد سیاسی درجہ حرارت بڑھ جانے کا امکان ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے تو پہلے ہی سے گنتی شروع کردی ۔ ان کی امیدیں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) کی سفارشات سے وابستہ ہیں ۔
60؍دن کی مدت مکمل ہونے پر 7؍ جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ عدالت عظمیٰ کی تین رکنی خصوصی بنچ کو پیش کرے گی۔ جو انتہائی حساس پاناما کیس سے متعلق ہے۔ اپوزیشن کے لئے پاناما کیس کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کی قسمت اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ کردے گا۔
اگر وہ مجرم نکلے تو ملک میں قبل از وقت انتخابات کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ حکمراں مسلم لیگ (ن) مقابلے کے لئے تیار ہے؟ جے آئی ٹی جس نے اپنی تیسری رپورٹ جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی سوائے حسین نواز کی فوٹو لیک کے جے آئی ٹی نے تحقیقات میں اپنی رازداری کو برقرار رکھا ہے۔
دو بڑے سیاسی حریفوں کے درمیان سیاسی کشیدگی محاذ آرائی کا باعث ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا عید کے بعد اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کا جہاں منصوبہ ہے وہیں مسلم لیگ (ن) بھی جوابی حملے کے لئے پرتول رہی ہے۔ حتمی فیصلہ چاہے نواز شریف کا سیاسی کیریئر ڈبودیتا یا بچالے جاتا ہے۔
ایک بات طے ہے کہ عید بعد ہماری سیاسی قیادت کی بلوغت کی آزمائش ہوگی۔ اس کا زیادہ تر دارومدار نواز شریف اور عمران خان کے ردعمل اور حکمت عملی پر ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) سیاسی لڑائی کے ذریعہ نظام کو بچا سکتی ہے یا ٹائٹانک کی طرح جہاز ہی غرق کرسکتی ہے۔ انہیں پیپلزپارٹی سے کچھ سبق سیکھنا چاہئے جس نے نظام بچانے کے لئے اپنے وزیراعظم کی قربانی دی۔
پاکستان کی سیاست میں جولائی کی اپنی اہمیت ہے کیونکہ 40؍ سال پیچھے اسی مہینے جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔ بھٹو اور پی این اے اسے بچا سکتے تھے لیکن یہ بھی درست ہےکہ یہ 5؍ جولائی 1977ء ہے اور نہ 12؍ اکتوبر 1999ء۔ یہ جولائی 2017ء ہے اور سیاست دانوں نے ہی 2014ء میں نظام بچایا تھا۔
حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے لئے جوبات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ محاذ آرائی فوجی آمریت کی جانب لے جاتی ہے۔ہم نے ضیاء الحق کی 11؍ سالہ اور پرویز مشرف کی 9؍ سالہ آمریت کا مشاہدہ کیا۔
اب صورتحال 1977ء اور 1999ء کے مقابلے میں بدلی ہوئی ہے۔ اس وقت سیاسی بحران ہے اور نہ ہی سویلین اور عسکری اسٹیبلشمنٹ میں محاذ آرائی۔ عدالتی جنگ بھی عدلیہ کے پلیٹ فارم سے ہی لڑی جارہی ہے۔ یہ ماضی سے مختلف ہے، نظریہ ضرورت پہلے ہی دفن کردیا گیا۔ اگر وزیراعظم شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بحران سے نکل آتے ہیں، وہ جون 2018ء تک وزیراعظم رہیں گے۔
کیس ہار جانے کی صورت میں بھی حکمراں جماعت ایک عارضی وزیراعظم کے تحت اپنا باقی سال بھر مکمل کرےگی ، جیسا کہ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت میں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جانا مسلم لیگ ن کے لئے بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا پھر وہ بھنور سے نکل نہیں سکے گی لیکن ان کے پاس کھیلنے کے لئے سیاسی پتے موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی ناموافق فیصلہ نواز شریف کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت کے لئے بڑا چیلنج ہوگا لیکن اپنی جگہ کسی اور کو وزیراعظم مقرر کرکے وہ اپنی سیاسی اور قانونی جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔
اپوزیشن خصوصاً عمران خان مختلف موڈمیں نظر آتے ہیں انہوں نے قبل از وقت انتخابات کے لئے دبائو ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ حکمراں جماعت سے کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرلیتی ہے تو اپوزیشن کے لئے آئینی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو ہٹانا مشکل ہوگا۔ خصوصاً جب عمران خان محاذ آرائی کے موڈمیں ہوں۔ قانونی جنگ میں کامیابی کی صورت وہ تنہا پرواز ہی کو ترجیح دیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں محاذ آرائی یقینی ہونے کی صورت میں پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے نتائج سے آگاہ ہے ۔
ایک بات یقینی ہے کہ پیپلزپارٹی مارچ 2018ء سینیٹ انتخابات تک مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہے گی لیکن ساتھ ہی وہ کسی ماورا آئین اقدام کے بھی حق میں نہیں۔ گو کہ جمہوریت کو فوری کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن محاذ آرائی سیاسی بے یقینی کو بڑھادے گی لہٰذا عید کے بعد کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ پریشان کن ہوسکتاہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی کردار کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) کو 2014ء میں بچایا۔ جب اس طرح کی رپورٹس موجود تھیں کہ 30؍ اگست 2014ءکو پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی پر حملے کے بعد نواز شریف حکومت رخصت کردی جائے گی۔