بلاگ
24 جون ، 2017

بچے، پوتے اور نواسے

بچے، پوتے اور نواسے

کچھ روز سے سوشل میڈیا پر مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی ایک ویڈیو انٹرویو زیر گردش ہے۔ اس ویڈیو میں بھٹو جونیئر نازیہ حسن کے مشہور گیت ’ڈسکو دیوانے‘ پر نسوانی لباس میں ڈانس کرتے نظر آتے ہیں۔ انٹرویو میں ان کی انگلیوں پر نیل پالش دیکھی جا سکتی ہے اور وہ سلائی کڑھائی بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  

انٹرویو میں انہیں ’کویر‘ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے عجیب و غریب۔  بظاہر ان کے چہرے میں نسوانیت نظر نہیں آتی اور ان کا موقف یہ ہے کہ وہ ’مردانگی‘ کے روایتی تصور کو درست نہیں سمجھتے۔  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر اپنے خاندان میں ہونے والی چار شہادتوں کا نفسیاتی دباؤ ہو یا ان کی زندگی میں یہ مرحلہ وقتی ہو۔

ان کی اس ویڈیو سے بھٹو کے متعدد مداحوں کو تکلیف بھی ہوئی جب کہ بھٹو کے مخالفین کو اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا۔  اس ردعمل کا یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ ایک اہم خاندان میں پیدا ہونے والے کسی شخص کی ذاتی ترجیحات کو صرف اس کی ذات تک محدود کر کے دیکھنے کے بجائے اس سے وابستہ توقعات کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کی دوسری اور پھر تیسری نسل سے پہلے لیڈر جیسی توقعات باندھی ہی کیوں جائیں؟ اسے اپنی انفرادی زندگی گزارنے کا موقع کیوں نہ دیا جائے؟

ایک عظیم شخصیت کا بیٹا ہونے کا بوجھ کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو آپ علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کی خودنوشت سوانح عمری ’اپنا گریباں چاک‘ پڑھیں۔ اس میں جاوید اقبال نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے طرز عمل کا احوال قلم بند کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ والد کی وفات کے بعد انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے والد منع کرتے تھے۔  وہ سنیما جانے لگے۔ راتوں کو گھر سے باہر رہنے لگے۔ لندن گئے تو وہاں بھرپور کلب لائف کا لطف بھی اٹھایا۔

اب سوچیے کہ جس کے باپ سمیت خاندان کی چار عظیم شخصیات  کو شہید کر دیا گیا ہو کیا وہ بچہ نفسیاتی طور پر اس قابل ہوں گا کہ ایسے غم کو آسانی سے بھلا کر سیاسی جماعت کی قیادت کر سکے؟  میرا خیال ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی مبینہ وڈیو کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

 مرتضیٰ بھٹو کے بچوں نے اب تک سیاست سے گریز کیا ہے جس کی وجہ بھی بہت واضح ہے۔  فاطمہ بھٹو شفاف ذہن کی مالکہ اور ایک مصنفہ کے طور پر سامنے آئیں اور دنیا سے اپنی صلاحیتوں لا لوہا منوایا اور ایک قابل مفکر اور ادیبوں کی فہرست میں شامل ہو گئیں ۔  مگر کیا انہیں پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے ؟ اس بات کا فیصلہ انہیں خود کرنے کا پورا حق ہے۔ انہوں نے اپنے لیے ایک مصنفہ کی زندگی پسند کی ہے جسے وہ بہت کامیابی سے گزار رہی ہیں۔

ان بہن بھائی کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ابھی ان دونوں کو اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے، بہت کچھ دیکھنا ہے، بہت تجربات کرنے ہیں بلکل ویسے ہی جیسے دوسرے نوجوان کرتے ہیں۔

میرے خیال میں ابھی سے ان کے بارے میں کچھ طے کر لینا ان سے زیادتی ہو گی۔ بھٹو خاندان کے دیگر بچوں کو بھی نارمل بچپن نہیں مل سکا۔ کبھی یہ بچے اپنی ماں کے ساتھ وزیراعظم ہاوس میں کھیل رہے ہوتے اور کبھی اپنی ماں کے ساتھ اپنے قیدی باپ سے ملنے جیل جا رہے ہوتے۔  مجھے ذاتی طور پر یہ بچے بہت عزیز ہیں۔  لیکن میری خواہش ہے کہ یہ بچے سیاست سے دور رہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ بلاول کم از کم اگلے دس سال یورپ یا امریکا میں گزارے۔  شادی کرے  دوست احباب بنائے۔  اس کے بعد وہ بہ طور انسان ایک سنجیدہ اور پختہ شخص کے روپ میں سامنے آ سکتا ہے۔  فی الحال تو ایک عام خیال یہ ہے کہ اس میں طفلی کی خو بُو ہے۔  

پاکستان کی پر خطر سیاست میں اس نوجوان کو اتارنا ویسے بھی کوئی درست فیصلہ نہیں۔ جب بلاول یورپ یا امریکا میں دس پندرہ سال گزار لے گا تو اس کے بعد طے کرے کہ کیا وہ سیاست کرنا چاہتا ہے یا کچھ اور۔

وزیراعظم نواز شریف سنہء 90 کی دہائی میں اپنے بیٹے حسین نواز کو آگے آگے رکھتے تھے۔  اب مسلم لیگ ن کے کارکن مریم نواز کی تصویروں کو اپنے قائد کی تصویر کے ساتھ چھاپ رہے ہیں۔  مریم کو وزیراعظم نواز شریف نے اوباما کی بیگم کے سامنے انگریزی تو بُلوا دی مگر ادیبوں کے حلقے میں ان کا ذکر پدرم سلطان بود کے حوالے سے ہی ہوتا ہے، ذہانت اور فطانت کے حوالے سے نہیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہیں مگر ممکن ہے سیاست ان کا شعبہ نا ہو اور وہ کسی اور شعبے میں زیادہ مہارت دکھا سکیں۔  بات پھر وہی ہے کہ اس کے انتخاب کا فیصلہ انہیں خود کرنا ہے۔

سعودی عرب کے بادشاہ نے کئی دہائیوں پرانی روایت ترک کر کے اپنے بعد اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا دیا ہے۔ اردن کے شاہ حسین نے کئی دہائیوں تک ولی عہد رہنے والے اپنے بھائی شہزادہ حسن بن طلال کو اپنی وفات سے کچھ ہفتے پہلے معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا دیا۔ ہر باپ کی طرح لیڈر باپ میں بھی اپنی اولاد کی محبت ہوتی ہے۔ لیکن کیا لیڈر کے لیے قوم کی محبت کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا قوم کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ پارٹی میں کسی اور کو اپنا لیڈر چن سکے؟ میرا خیال ہے کہ سیاست اور وراثت کو الگ الگ ہونا چاہیے۔  

اگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ان کی اولادوں نے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تو آج کے لیڈر ان سے بڑے تو نہیں ہیں۔


سید کاشف رضا ادیب، شاعر، مترجم اور جیونیوز سے وابستہ ہیں۔

 



جیو نیوز کا اس آرٹیکل میں بیان کیے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔