17 جولائی ، 2017
اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت کے دوران پیر کے روز وزیراعظم نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
شریف خاندان نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراض سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے وزیراعظم کےاعتراضات کی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کے کزن کی خدمات لی گئیں۔
وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کو خفیہ رکھنا بدنیتی ہے اور یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
’رپورٹ میں وزیراعظم کی ذات، نوکری سے متعلق حقائق تصوراتی ہیں، جے آئی ٹی کے وزیراعظم سے متعلق ریمارکس تعصب ظاہر کرتے ہیں‘
جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کیخلاف شہادتیں عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے مترادف ہے، تمام تفتیشی عمل متعصب،غیر منصفانہ اور جانبدارانہ ہے جبکہ تمام تفتیشی عمل قانونی ضابطوں کے خلاف ہے۔
وزیراعظم نے اپنے جواب میں درخواست کی ہے کہ فیئر ٹرائل مدعاعلیہان کا بنیادی حق ہے جبکہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ شفاف تحقیقات کے بعد ٹرائل شفاف ہوگا اور غیرشفاف تحقیقات کو کالعدم قراردیا جائے۔
جواب میں کہا گیا کہ مدعاعلیہان کےٹرائل کیلیےقانون کیمطابق مواد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، جے آئی ٹی رپورٹ نامکمل اور نقائص سے بھرپورہے۔
’نامکمل رپورٹ کے باعث مدعاعلہیان کیخلاف آرڈر پاس نہیں کیا جاسکتا، جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے کہا مکمل رپورٹ جمع کرائی جارہی ہے۔ اب اسے مزید کوئی ریکارڈ جمع کرانے نہ دیا جائے ‘
جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے مدعا علیہان کو کوئی دستاویز نہیں دکھائی اور اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر کام کیا۔
اعتراضات میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر دستاویزات حاصل کیں، کوئی دستاویز تصدیق شدہ اور اصلی نہیں۔
وزیراعظم کے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران کے دو ارکان کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اختر راجہ لندن میں پی ٹی آئی کے ورکر ہیں جبکہ بلال رسول کی اہلیہ پی ٹی آئی کی امیدوار رہی ہیں، بلال رسول کا تعلق تحریک انصاف جبکہ عامر عزیز کا تعلق ق لیگ سے ہے۔
جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی ممبران کو دھمکانے سے متعلق باتیں بھی عدالت پراثرانداز ہونے کی کوشش ہے، ایسی باتیں وزیراعظم کو عوام الناس میں بدنام کرنے کی کوشش ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔
جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل کرکے اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس میں شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد بتایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت سے کچھ دیر قبل شریف خاندان کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت عظمیٰ میں اعتراضات پر مشتمل درخواست جمع کرائی۔
شریف خاندان کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کی نامزدگی پر بھی اعتراضات ہیں، اور اس کی رپورٹ جانبدارانہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا رویہ غیر منصفانہ تھا اور اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی سے 13سوالوں کے جوابات مانگے گئے تھے، جے آئی ٹی نے قانونی طور پر کام نہیں۔
اعتراضی درخواست میں شریف خاندان نے مؤقف اپنایا کہ کسی کے خلاف دستاویز خود سے حاصل کیں تو پوچھنا ضروری ہوتا ہے، مگرنہیں پوچھا گیا، جے آئی ٹی نے ہر معاملے پر حتمی رائے قائم کی، کسی تفتیش طلب شخص کو قصور وار قراردینے کا اختیار جے آئی ٹی کے پاس نہیں۔
شریف خاندان نے اعتراضی درخواست میں سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی۔