05 اگست ، 2017
ہائے ! خوامخواہ صرف شاہ رخ کی وجہ سے فلم دیکھنے آگئے( 70 سالہ آنٹی سینما سے باہر نکلتے ہوئے)۔اس سے اچھا تھا کہ یہ فلم دیکھ لیتے( ایک فیملی نے جمان جی کے تھری ڈی پوسٹر پر اشارہ کیا۔ یہ جانے بغیر کہ اس فلم کے ریلیز ہونے میں ابھی بہت ٹائم ہے)۔ بہت ہی فارغ فلم تھی ( 18سالہ لڑکی اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کے کان میں بولتے ہوئے)۔لڑکے نے بھی سوچا ہوگا چلو کوئی بات نہیں لیکن ٹکٹ کے پیسے ضائع ہوگئے پاپ کارن اور آنے جانے کا خرچہ الگ ہوا۔
فلم دیکھنے والوں نے فلم کی ریٹنگ کے لئے ”بیچ بیچ میں“ کا گانا بھی نہیں گایا ہوگا۔ صرف ایک ہی گانا ان کے لبوں پر ہوگا ”اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا “۔
ظاہر ہے راک اسٹار،جب وی میٹ، لو آج کل اور ہائی وے بنانے والے رائٹراور ڈائریکٹرامتیاز علی کی فلم ہو اس میں پہلی بار شاہ رخ خان کی انٹری ہو ،فلم میں شاہ رخ کی جوڑی انوشکا کے ساتھ ہو ،فلم یورپ میں شوٹ ہوئی ہو تو دیکھنے والوں کو ”ہائی ہوپس“ تو ہونگی لیکن یہ ساری امیدیں فلم کے پہلے شو کے ساتھ ہی دم توڑ گئیں۔
فلم امتیاز علی کے کیریئر کا سب سے کمزور”تماشا“ ہے ۔فلم شاہ رخ کی ”گڈو“ اور انوشکا کی ”بمبئے ویلوٹ“ بھی پیچھے کی فلم ہے ۔فلم کی کہانی (اگر آپ اسے کہانی کہیں) تو فلم دیکھنے کے بعد آپ جان جائیں گے لیکن شاہ رخ کون ہوتا ہے ، وہ یورپ کیوں جاتا ہے، اس کا ماضی کیا ہے،فلم میں گلیڈیٹر والے فلیش بیک کا کیا کام،انوشکا کی فیملی میں ایک بہن کے علاوہ اور کون کون ہیں یہ سب سوال ایک بھوت بن کر آپ کا پیچھا کریں گے ۔
شاہ رخ اس فلم میں رومانس کرنے والے شاہ رخ لگے ہی نہیں،اداکاری تو کنگ خان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن وہ اس میں فلم جچے نہیں۔انوشکا کی اداکاری میں بھی جھول نہیں لیکن فلم شاید اتنی جلدی میں بنائی گئی ہے کہ انوشکا فلم میں تھوڑا جرمنی اور انڈیا آنے کے بعد ہی خوبصورت لگی حالانکہ ابھی اسی یورپ میں انوشکا کا روپ فلم ” اے دل ہے مشکل “ میں کچھ اور ہی تھا۔
فلم میں ایڈیٹنگ اتنی سلو اور ”کنٹی نیوٹی جمپ“ بھی اتنے واضح ہیں کہ کوئی بھی بغیر ”پاژ اینڈ ریوائنڈ“ کے انھیں پکڑ سکتا ہے۔فلم میں کئی بار ڈراما آتا ہے جیسے انوشکا کا بار میں غنڈوں کے بیچ میں پھنس جانا یا شاہ رخ اور انوشکا کو جب اغوا کیا جاتا ہے لیکن دونوں بار فلم اور سست ہوجاتی ہے اور دیکھنے والے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کر کے انٹرویل اور دی اینڈ ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ڈھائی گھنٹے کی فلم میں سب سے اچھا لمحہ”انٹر ویل “ کا ہے یا پھرکچھ مکالموں کا ۔تھوڑی دیر کیلئے بھی دیکھنے والے فلم سے جڑتے ہیں نہ کسی کردار سے۔شاہ رخ کی پنجابی اکثر جگہ سمجھ ہی نہیں آتی ،شاہ رخ بھی سب سے اچھے اسی گانے میں لگے ہیں جس میں وہ جرمنی میں اپنے دوست کی شادی مناتے ہیں۔
پاکستان میں فلم سینسر کرنے والوں پر بھی حیرت ہے کہ وہ شاہ رخ کا کافی منگوانے کا ایک ”اشارہ“ تو سینسر کر دیتے ہیں لیکن انھیں بار میں حسیناوٴں کا پول ڈانس شاید نظر نہیں آتا۔
کچھ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کے شاہ رخ اور انوشکا کا دوبارہ انہی غنڈوں سے سامنا ہوگا جن کی پہنچ سے ایک بار وہ بھاگ چکے ہیں ، لیکن دوسری بار کے غنڈے کوئی اور ،پہلے والوں سے بھی کمزور نکلتے ہیں۔
شاہ رخ کی اس فلم نے پہلے دن16کروڑ کمائے لیکن اس فلم کا سو کروڑ کا اسٹاپ کراس کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آرہا ہے۔ ویسے ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ فلم ”ٹیوب لائٹ“ جیسی بڑی فلاپ جتنا بزنس بھی نہیں کرسکے گی۔اور اکشے کمار اپنی یقینی ہٹ ”ٹوائلٹ ایک پریم کتھا “ کے ساتھ نمبرز گیم میں شاہ رخ سے آگے اور عامر اور سلمان کے پیچھے جگہ پکی کرلیں گے۔
اس فلم کو امتیاز علی نے ایسے بنایا ہے جیسے کراچی میں جب بس رات کو اپنے آخری روٹ سے واپس آتی ہے تو اپنی مرضی کی رفتار سے اسٹاپ پر رکتی ہوئی آتی ہے ڈرائیور تھک کر اتنا بد دل ہوجاتا ہے کہ کہیں بھی اونگھنے والے مسافروں کو اترنے کا بول دیتا ہے اور مسافروں کے پاس پیسے خرچ ہونے کے باوجود اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
میں نے فلم دیکھنے کے بعد اپنی رائے آپ کے سامنے رکھ دی ہے مگر:
1۔ ہر فلم بنانے والا فلم پر باتیں بنانے والے سے بہتر ہے۔
2۔ فلم سینما پر دیکھیں ضرور ،کیونکہ فلم سینما کیلئے ہی بنی ہے۔ آپ کے ایل ہی ڈی یا موبائل فون یا لیپ ٹاپ کیلئے نہیں۔
3۔ فلم کا ریویو صرف ایک فرد کا تجزیہ ہوتا ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح بھی ہوسکتا ہے اور اکثر کی رائے سے مختلف بھی۔
4۔ غلطیاں صرف فلم بنانے والے سے نہیں ہم سے بھی ہوسکتی ہے آپ سے بھی ۔۔تو آپ اگر کوئی غلطی دیکھیں اس کی نشاندہی ضرور کریں(شکریہ)۔