Time 08 ستمبر ، 2017
بلاگ

لاہور کے حلقہ 120 میں کیا ہورہا ہے؟

سیاست نے ہمارے دماغ کی چولیں ہلا دی ہیں۔ روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک تو اپنے عمران خان ہیں جن کا خیال ہے کہ

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی

چنانچہ موصوف دھرنوں سے شروع ہوئے اور پاناما سے ہوتے ہوئے آج تک روزانہ نت نئی ہلڑبازی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں بالآخر ہماری نیک نام سپریم کورٹ نے اپنی عظمت ِ رفتہ کی روشنی میں وہ فیصلہ سنایا جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ پاکستانی عوام کے مقبول ترین رہنما اور وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا اور ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ان کی لاہور کی ایم این اے کی سیٹ خالی ہوگئی اوریوںان دنوں وہاں ضمنی انتخابات کاہنگامہ برپا ہے!

حلقہ این اے 120میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار میاں نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز ، تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد،پاکستان پیپلزپارٹی کے فیصل میر اور جماعت اسلامی کے ضیا الدین انصاری ہیں۔ اسے آپ اتفاق ہی سمجھیں کہ میں ان امیدواروں میں سے صرف بیگم کلثوم ہی کو ذاتی طور پر جانتاہوں۔ وہ ایک بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں اور میرا ’’ووٹ‘‘ اس لئے بھی ان کے بیلٹ بکس کے لئے ہے کہ انہوں نے اردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔

ان کی باقی خدمات کاذکر تو بعد میں کروں گا پہلے یہ بتالوں کہ وہ میاں نوازشریف کو اردو ادب کی طرف راغب کرنے میں لگی رہتی ہیں چنانچہ میرے خیال میں اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کی وزیراعظم بھی بن جاتی ہیں تو پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ اس ملک کے عوام نے اپنی وزیراعظم ایک ادیب کو چنا ہے۔

تحریک انصاف سے وابستہ کارکنوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی ہار میں سب سے زیادہ محنت خود عمران خان نے کی ہوتی ہے۔

چلیں یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی کیونکہ وزارت عظمیٰ کے انتخابات تک بہت سے فیصلوں اور صورتحال میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔ میں تو وہ لمحات فراموش ہی نہیں کر سکتا کہ جب وہ لوگ اپنے گھروں میں گھسے ہوئے تھے جس وقت انہیں میدان میں اترنا چاہئے تھا۔ ہماری یہ رائٹر بہن میدان میں اتری۔ پولیس نے انہیں گاڑی سے باہر نکلنے کے لئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ’’قفل تراشی‘‘ کے ممتاز ترین ماہرین کو بلایا گیا۔ انہوں نے اپنی قفل تراشی کی تمام تر صلاحیتوں کو آزما دیکھا مگر اس گاڑی کا میکنزم ایسا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا۔

بالآخر پولیس نے ایک کرین منگوائی اور گاڑی کو دس پندرہ فٹ بلندی پرکھڑا کر دیا اور کافی دیر تک بیگم صاحبہ کی گاڑی ہوا میں معلق رہی مگر وہ پورے صبر اور تحمل سے گاڑی میں بیٹھی رہیں۔ یہ غالباً 2001کا واقعہ ہے سو یہ بہادر خاتون ایک بارپھر میدان میں اتری ہے۔ بدقسمتی سے انہیں علاج کے لئے بیرون ملک جانا پڑ گیا مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ اپنے لوگوں کے درمیان ہوں گی۔

بیگم صاحبہ کی عارضی غیرحاضری کے باوجود اس لئے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یوںتو پاکستانی عوام کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کے پاس نواز شریف کا متبادل کوئی رہنما نہیں اور لاہور تو خیر ہے ہی مسلم لیگ کے جیالوں کا....! اوپر سے انتخابی میدان کارزار میں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز سرگرم عمل ہیں۔ جو گلی گلی محلے محلے اپنے لوگوں کے پاس جارہی ہیں۔

شدید گرمی اور بدترین حبس مگر ناز و نعم میں پلی ہوئی مریم یہ سب کچھ برداشت کر رہی ہے کہ جانتی ہے مسئلہ حکومت کا نہیں مسئلہ پاکستان کی ترقی کا ہے.... اور ان ترقیاتی منصوبوںکا جن کی تکمیل پاکستانی عوام کی تقدیر بدل دے گی۔ حلقے کے لوگ اپنی اس بیٹی اور بہن کا جس پرجوش طریقے سے استقبال کر رہے ہیں اور ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں، اس کے پیش نظر مسلم لیگ کی جیت کے حوالے سے شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

تاہم ڈاکٹر یاسمین راشد جو اگرچہ جانتی ہیں کہ جیت ان کے مقدر میں نہیں اس کے باوجود وہ بھی بہت محنت کرتی نظر آتی ہیں۔

تحریک انصاف سے وابستہ کارکنوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی ہار میں سب سے زیادہ محنت خود عمران خان نے کی ہوتی ہے۔ چنانچہ اِدھر لاہور میں معرکہ گرم ہے اور اس کے ساتھ ہی خان صاحب نے کے پی کے میں اپنی ناکامی کا ایسا کھلم کھلا اعتراف کیا ہے کہ ووٹر سوچ رہا ہے کہ جس لیڈر نے تمام تر وعدوں بلکہ دعوئوںکے باوجود چارسال میں صرف یہ کیا کہ کچھ بھی نہیں کیا لہٰذا آئندہ اپنا ووٹ کیوں ضائع کیا جائے۔

امیدواروں میں پیپلزپارٹی کے فیصل میر اور جماعت اسلامی کے ضیا الدین انصاری بھی شامل ہیں۔ یہ بھی جمہوریت کاحسن ہے کہ ٹانگ میں خرابی کے باوجود یار لوگ دوڑ میں شریک ہو جاتے ہیں!

یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں 8 ستمبر کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔