کیا تعلیمی اداروں سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن؟


پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے لڑتے ڈیڑھ دہائی ہوچکی ہے، اس دوران ملک کو بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا اور ان مثالی قربانیوں کی بدولت اہم کامیابیاں بھی ملیں لیکن یہ چیلنج اب تک برقرار ہے۔

اس طویل جنگ کا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف ان پڑھ یا سادہ لوح افراد کی برین واشنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہن بھی اس زہریلی ہوا سے متاثر ہورہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں وہ کون سی خامی ہے جو پڑھنے والوں کو منزل سے ہمکنار کرنے کے بجائے ، گمراہ کررہی ہے؟

مختلف ماہرین تعلیم کے مطابق تعلیمی نصاب میں بعض منفی اور متشدد رجحانات ضیا دور میں داخل ہوئے۔ ان کے اثرات زائل کرنے کیلئے نصاب میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق نصابی کتب میں ایسی احادیث و قرآنی احکامات پڑھانا جس میں انسانی جان کی اہمیت پر زور ہو، ایسے مضامین اور موضاعات شامل کئے جائیں جن کے ذریعے عصری علوم کے ساتھ ساتھ برداشت ،بین المذاہب ہم آہنگی اور انسان دوستی کے جذبات پروان چڑھ سکیں۔ 

ماہرین نے نصاب کی تبدیلی کے ساتھ ، قابل اور اہل اساتذہ کی تقرری کیلئے بھی ایک نیا نظام متعارف کرانے پر زور دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق 1977 کے بعد درسی کتب کو ایک خاص رخ پر ترتیب دیے جانے اور بدلتی ضروریات کو سامنے نہ رکھنے کے باعث ملک کو بہت نقصان اٹھاناپڑا ہے۔ خطے کے ممالک سے آگے جانے والا پاکستا ن پیچھے رہ گیا ہے۔

اگر ملک میں ایک اور یکساں تعلیمی نظام نافذ نہ کیا گیا تو طبقاتی فرق کے علاوہ انتہا پسندی بھی بڑھے گی۔

مزید خبریں :