Time 17 ستمبر ، 2017
بلاگ

ڈیرن سیمی ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کیلئے ’ یونس خان‘

ڈیرن سیمی اور یونس خان کی پاکستان سپر لیگ کے دوران لی گئی فائل فوٹو

"مجھے جو بہتر لگتا ہے،میں ویسا ہی کرتا ہوں،اور اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ مجھے سچی بات کہنے اور اصول کیساتھ زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے"۔

یہ بات چند دن پہلے قومی ٹیم کے سابق کپتان یونس خان نے جیو سوپر پر "یہ ہے کرکٹ پاکستان " میں بنے میں کہی تھی۔

یونس خان اپنے کیرئیر کے دوران پی سی بی کے بعض معاملات پر خاموشی سے کرکٹ کھیلتے رہے،سینڑل کنڑیکٹ میں ہوتے ہوئے،انہوں نے قواعد کی پابندی کی پوری کوشش کی۔البتہ جب انہوں نے بورڈ سے معاہدہ ختم کیا تو اب ان کے مطابق بورڈ کو چلنا ہوگا،ورنہ ان کی اور بورڈ کی راہیں جدا ہیں۔

14ستمبر کو لاہور میں پی سی بی ایورڈز تقریب سے دور رہ کر انہوں نے واضع پیغام تو دے ہی دیا ہے ،البتہ دوسری جانب ورلڈ الیون کے ہمراہ پاکستان آنے والے 33 سال کے ڈیرن سیمی اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے درمیان اب واپسی کے تمام دروازے لگتا ہے بند ہو چکے ہیں۔

سینٹ لوشیا کا آل راؤنڈ ر جس کی قیادت میں ویسٹ انڈیز دو بار آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 جیتا، ملک کے بورڈ کے صدر سے ہاتھ ملانے کا بھی روداد نہیں رہا۔

15ستمبر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب پشاور زلمی کے ساتھ منسلک ڈیرن سیمی نے جب یہ دیکھا کہ 46سال کے کیمرون ورلڈ الیون کے کرکڑز کو اختتامی تقریب میں میڈلز پہنائیں گے،تو وہ خاموشی سے اس لائن ہی سے علیحدہ ہوگئے۔

یاد رہے،جمیکا سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ کیمرون نے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے اٹھارویں صدر کی حیثیت سے مارچ 2013ء میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔

بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا وقتا ًفوقتا ًخبروں میں چرچا تو رہتا ہی تھا،البتہ 3اپریل 2016ء کو ایڈن گارڈن کول کتہ میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم آئی سی سی ورلڈ ٹی 20کی فاتح بنی ،تو بطور کپتان ڈیرن سیمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔

انہوں نے ٹرافی اٹھاتے ہی بورڈ کا لحاظ کرنے کے بجائے،پوری دنیا کو بتا دیا تھا کہ "ہمارے اپنے کرکٹ بورڈ نے بے انتہا مایوس کیا۔ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم بے یارو مددگار تھی،یہاں تک ٹیم کے پاس کٹ تک نہیں تھی،البتہ شکریہ ادا کرتا ہوں کوچنگ اسٹاف کا جنھوں کھلاڑیوں کو اس معیار کی کرکٹ کھیلنے کے لئے آمادہ کیا،اور ایسے میں ویسٹ انڈیز ٹیم کی چیمپئن بننے کی مبارکباد کے مستحق ،صرف اس ٹیم سے محبت کرنے اور لگاؤ رکھنے والے شائقین ہیں"۔

ڈیرن سیمی کے اس انٹرویو کے بعد بورڈ اور ان کے راستے جدا ہوگئے،ایک جیتا ہوا کپتان اپنے ملک کی قیادت کے بجائے،دنیا کی مختلف لیگز میں کپتانی کر رہا ہے۔

سیمی ابھی صرف 33سال کا ہے،البتہ اپنے ملک کے لئے 38 ٹیسٹ 126 ون ڈے اور 66 ٹی 20 انڑنیشنلز کے ساتھ ہی اس کے کیرئیر کو بین الاقوامی سطح پر گویا بریک لگ چکی ہے۔

ڈیرن سیمی نے چار سال میں ویسٹ انڈیز کو دو بار ورلڈ ٹی 20 کا چیمپئن بنایا،2009ء میں یونس خان نے آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 کا فاتح بنایا،لیکن صرف پانچ ماہ بعد ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے کہ ایک چیمپئن کپتان نے خود کو قیادت کے منصب ہی سے علیحدہ کر لیا۔

ویسٹ انڈیز کا ڈیرن سیمی ہو یا پاکستان کا یونس خان دونوں چیمپئن کپتان ہیں،البتہ افسوس دونوں ہی کو ان کے بورڈ سے وہ عزت افزائی نہ مل سکی،جو بطور کپتان دونوں نے آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 ٹرافی جیت کر اپنی عوام سے حاصل کی۔


جیو نیوز اور اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔