بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2017

اَن دیکھی طاقتیں، حکومت اور اپوزیشن کے رونے

جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارے لیڈروں کا ایک ہی رونا ہے کہ ’’پاکستان کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے‘‘۔ ایسی مشکل صورتحال جس میں 2 دہائیوں سے گزرتے وقت کے ساتھ شدّت آتی جارہی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا پر اسامہ بن لادن نے ہلہ بول دیا جس کے بعد ہمارے لیڈروں کے رونے میں تبدیلی آئی اور پوسٹ نائن الیون رونے کے مطابق ’’پاکستان حالتِ جنگ میں ہے‘‘۔

لیڈروں کے رونے میں تبدیلی کے 16 سالوں بعد لگتا ہے کہ ہماری مستقل حالت ہی ’’حالتِ جنگ‘‘ ہے اور ایسی عارضی حالت جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ مستقل ہوگئی ہے۔

ابھی حالتِ جنگ کا رونا ختم نہیں ہواتھا کہ پاناما لیکس فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک نیا رونا سامنے آگیا۔

’’مجھے کیوں نکالا‘‘

پاناما لیکس کیس کے بعد سے اب تک سابق نااہل وزیراعظم کے ساتھ ساتھ حکومت بھی رو رہی ہے اور اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ان دیکھی طاقتوں کا بول کر رونا رو رہی ہے۔

حکومت اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے جس نے پیر کو سابق نااہل وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر صحافیوں سمیت وزیرداخلہ کو بھی احتساب عدالت میں داخل نا ہونے دیا اور جس نے نئے نویلے وزیرداخلہ کو ان کے کٹھ پُتلی وزیر داخلہ ہونے کا احساس دلایا۔

28 جولائی کو سابق وزیراعظم کے نااہل ہونے کے بعد سے اب تک پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت نے اپنے وزیراعظم کی نااہلی پر شدیانہ لگارکھا ہے مگر ان کی حرکات اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی زبانیں تو اپنی ہیں مگر کنٹرول میں کسی ان دیکھی طاقت کے ہیں اور اگر وہ اس ان دیکھی طاقت کانام لیتے ہیں تو نِست و نابود ہوجائیں گے۔

لیکن چونکہ معاملہ سابق وزیراعظم کی حُرمت کا ہے جن کے حق میں بولنا روز آخرت پر یقین کی طرح نون لیگیوں پر فرض ہے لیکن زبان ساتھ نہیں دیتی۔

ایک طرف حکومت سابق وزیراعظم کی نااہلی کے بعد اپنا رونا رورہی ہے اوردوسری طرف اپوزیشن بھی جب سے اپوزیشن میں آئی ہے، رونے پر رونا رو رہی ہے۔ حیران کن طور پر اپوزیشن بھی اسی ان دیکھی طاقت کے ہاتھوں تگنی کا ناچ، ناچ رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو چمونے لڑرہے ہیں۔

اپوزیشن کی سب سے لڑاکا جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ویسے تو 2013 کے انتخابات کے بعد سے ہی دھاندلی کارونا شروع کردیا تھا جوکہ سپریم کورٹ کے بنائے گئے عدالتی کمیشن کی تحقیقات کے بعد کم تو ہوا مگر پھر پاناما لیکس میں شریف خاندان کےنام آنے پر استعفے کا رونا شروع ہوگیا جو اب نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد نئے انتخابات کے رونے میں تبدیل ہوگیا ہے۔

تحریک انصاف کے رونوں کے علاوہ یہ اسی ان دیکھی طاقت کا کمال ہے کہ اپوزیشن کو چار سال گزر جانے کے بعد یاد آیا کہ اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنا چاہیے جس کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے روابط کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کا آئیڈیا بنیادی طور پر تحریک انصاف کا ہے جس کے پارٹی چیرمین کو اس ان دیکھی طاقت نے طعنہ دیا کہ عمران خان، تم وزیراعظم تو بن نہیں سکتے، چلو اپوزیشن لیڈر ہی بن جاؤ۔

اس ان دیکھی طاقت نے ایسا کرشمہ کیا ہے کہ ناصرف حکومت، بلکہ اپوزیشن کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرے؟۔

اس ان دیکھی طاقت کی طلسماتی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر جوکہ نظریہ ضرورت کے تحت رینجرز کی مدد مانگنے کے مجاز ہیں، اس سے انکاری ہیں۔

جج صاحب کے علاوہ چیف کمشنر اسلام آباد جو رینجرز کو تعینات کرنے کی اتھارٹی رکھتے ہیں وہ بھی رینجرز کی تعیناتی سے ناواقف تھے۔

احتساب عدالت میں صحافیوں اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے ساتھ ہونے والے سلوک پر وزیرقانون پنجاب رانا ثناللہ کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ایک ریاست ہے جوکہ ریاستی معاملات کا کنٹرول سنبھالے بیٹھی ہے۔

پنجاب کے معصوم وزیر قانون کے لیے عرض ہے کہ آپ کا کہنا بالکل درست ہے، یہ ریاست اَن دیکھی طاقت رکھنے والی قوتوں کی ریاست ہے جس میں نام نہاد جمہوری جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اپنی ایک ریاست بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور جونہی عوامی مینڈینٹ رکھنی والی جمہوری حکومتیں آپے سے باہر ہونے لگتی ہیں انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان دیکھی طاقتیں اگر چاہیں تو وزیرداخلہ کو بھی احتساب عدالت میں گھسنے نا دیں۔

سلام ہے ایسی ان دیکھی طاقت کو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔