11 اکتوبر ، 2017
بار بار لکھوں گا، جوں جوں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ عملی میدان میں اترے گا، توں توں امریکی بھیانک عزائم اُمڈ اُمڈ آئیں گے۔ رٹ ایک ہی، ’’امریکہ، پاک چین اقتصادی راہداری بننے نہیں دے گا جبکہ چین بنا کر چھوڑے گا‘‘۔ آج مشاہدوں پر مہرِ تصدیق ثبت ضرور، خدشات و تفکرات نظامِ تنفس اکھیڑ چکے۔
مارچ2014میں نواز شریف عمران کی چائے دعوت پر بنی گالہ تشریف لائے۔ کئی گھنٹوں کی خوش گپیاں، ملبوسات، جوتے، سٹرکیں، گردو نواح کے مسائل سب کچھ زیر بحث رہا۔ قومی مسائل و معاملات پر باہمی دلچسپی و گفتگو اوجھل رہی۔ اگلے دن دونوں رہنمائوں کی کھلی باچھیں وبغلگیر تصاویر سب اچھا کی رپورٹ دے گئیں۔
اپریل2014 میں دریشک قبیلے کے سرخیل بڑے بھائی، اسپیکر صوبائی اسمبلی کے خلاف راجن پور میں عمران خان کا جلسہ و احتجاج چاہتے تھے۔ شاکی کہ عمران خان وقت نہیں دے رہے۔ اپنا خیال دیا، شاید چند سال احتجاجی سیاست برطرف رکھتے ہوئے تنظیمی اور پارٹی معاملات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہوں۔
چند سال پہلے بے ہنگم جم غفیر شامل ہوا تو پارٹی آڑے ہاتھوں رہی۔ فراغت کا سنہری موقع کا بھرپور استعمال کرنا چاہتے ہوں گے۔ کیا افتاد آن پڑی کہ اپریل 2014جبکہ حکومت کو اقتدار میں آئے11ماہ نہ گزرے تھے، لاہور مرکز، کراچی تا چترال ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے ہورڈنگز، بل بورڈ، بینرز، پوسٹرز ہر اہم شاہراہ ہر اہم جگہ کو گھیر چکے تھے۔
کیا زمانہ تھا، پاناما کیس نہ ہی ماڈل ٹاؤن قتل عام، دماغ آج بھی شل، ایسا ڈرامہ پھر کیونکر رچایا گیا؟ جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو کیا کچھ تھا، ملاحظہ فرمائیں۔
اپریل2014 میں نواز شریف کو زبردستی وزیر اعظم ہاؤس سے نکالنا اور استعفیٰ لینے کا اعلانیہ ہوا۔ عمران خان کو قادری کے قافلہ راہ حق میں کس نے شامل کروایا؟ عمران خان جو اپریل2014میں عوامی مفاد عامہ اور جنگلوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف راجن پور جا کر بھرپور عوامی احتجاج کو بے وقت کی راگنی کہہ رہے تھے، مئی میں ملک گیر احتجاجی سیاست کا جزو لاینفک کیسے اور کیوں بنے؟
پاناما کیس تو خیر سے ٹھوس وجہ کہ نواز شریف ’’چور‘‘ ہے، ہماری معزز عدلیہ نے جیسے ہی تاریخی کتابیں کھنگالیں اور بیسٹ سیلر ناولوں کی چھان بین ہوئی تو نتیجہ ایک ہی، ’’حکمران ٹولہ اطالوی مافیا ہے‘‘۔ سربراہ گاڈ فادر کہلائے۔ کاش اطالوی مافیا کے عروج پر اٹلی یا امریکہ کی بھی کوئی عدالت ایسے جرات مندانہ ریمارکس دے پاتی۔
2016 میں پاناما کو پہاڑ مان لیتے ہیں، 2014میں ریاست کا ستیاناس رکھنے کی ’’رائی‘‘ کی تفصیل بھی دینی ہو گی۔ بازگشت ایک ہی، 2014میں مملکت کی چولیں ہلانا کیوں ضروری تھا، وہ امپائر کون تھے،جو پس پردہ عمران قادری کی رہنمائی فرما رہے تھے؟ کیا یہ وہی موقع نہ تھا جب چینی صدر نے چین اقتصادی راہداری کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بنفسِ نفیس پاکستان تشریف لانا تھا۔
کرشمہ ساز عمران خان قوم کو طفل تسلیاں دیتے رہے کہ ’’جھوٹو! چینی صدر نہیں آ رہا، اقتصادی راہداری سب جھوٹ ہے‘‘۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوتے ہی دھرنا دم توڑ گیا۔ قادری نے جیسے ہی ریاست بچائی، بھاگ نکلے۔ عمران خان بمشکل دھرنا ختم کر پائے۔
آج80 اور 90کی دہائی کے جرائم کی گوشمالی کے لئے وقت چن لیا گیا ہے؟ اس وقت کو تو وطن عزیز کو یکسوئی اور استحکام درکار تھے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں سے جاری جہاد بالآخر وطن عزیز کو افراتفری اور عدم استحکام میں دھکیل چکا، آج بھرکس نکل چکا۔ پاسبانِ وطن یہ بتائیں کہ ایسے حالات جبکہ بیرونی مصیبت نازل ہوا چاہتی ہے۔ وطن کی فکرکس کو کرنی ہے؟ ریاست کا نقصان کس ادارے کو سب سے زیادہ؟ امریکی وزیر دفاع نے چند دن پہلے نئی بات نہیں کہی۔ یہاں عسکری قیادت کی نیندیں اچاٹ کرنے کے لئے کافی۔
ستم ظریفی ہی جانیے، دو سو سال سے آزاد تجارت اور 60سال سے تحفظ ماحولیات کا چیمپئن امریکہ آج دونوں اصولوں سے راہِ فرار اختیار کر چکا ہے۔ دوسری طرف چین آزاد تجارت اور گلوبل اقتصادی بحالی و ترقی کا ناک نقشہ دے رہا ہے۔80کی دہائی کا اختتام سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ پر منتج ہوا۔ امریکہ بہادر نے چھوٹتے ہی اقوام عالم کو نیو ورلڈ آرڈر کا مژدہ سنایا۔ 1988میں عظیم دانشور مرحوم نسیم انور بیگ سے استفسار کیا کہ نیو ورلڈ آرڈر کیا بلا ہے؟ مختصر جواب، ’’توانائی کے ذخائر پر قبضہ اور کشمیر بشمول شمالی علاقہ جات کو اپنے تصرف میں رکھ کر چین اور روس کی چوکیداری کرنا ہی"۔ آنے والے سالوں میں یہی کچھ دیکھا۔ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ جہاں جہاں تیل کے ذخائر، امریکی قبضہ استبداد میں، آگ اور خون میں لت پت نظر آئے۔ کشمیر و شمالی علاقہ جات پر جنرل مشرف کا تجویز کردہ فارمولا یہی تو تھا۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کامیابی سے منازل طے کر رہا تھا۔ وینزویلا سے لے کر لیبیا کے ساحل سے عراق، شام، ایران، خلیجی ممالک، افغانستان، پاکستان سارے ممالک تباہ یا تباہی کے دہانے پر۔ اللہ کی اپنی چالیں، روس اور چین کی بروقت آمد نے امریکی اعداد و شمار، پیشگی حساب، تخمینے خاک میں ملا دیئے۔ غیبی امداد رہی کہ آج کرہ زمین ایک بار پھر تکلیف دہ دردِ زہ میں، آنکھوں سامنے نئی بین الاقوامی قوتوں کی پیدائش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اکیلے چین کے لئے شاید نبرد آزمائی مشکل رہتی، مدد کے لئے بروقت روس طاقت بن کر سامنے آ چکا۔ چینی صدر شی چن پنگ کے اقتدار سنبھالتے ہی نیو ملٹی پولر ورلڈ کے خدوخال بننا شروع ہو گئے تھے۔ ایسا نیو گلوبل ورلڈ آرڈر متعارف کرا دیا کہ بجائے حصہ بقدر جثہ، انصاف پر مبنی وسائل کی تقسیم بنیاد ہے۔
یورپ اور ایشیا کے وسائل بڑھانے اور انفراسٹرکچر کو بہتر اور وسیع کرنے کے لئے ون بیلٹ ون روڈ کا نیا تصور دیا چینی گلوبل ورلڈ آرڈر کے طور پر آ چکا، کرہ ارضی کو شاہرائوں اور راستوں سے پرو کر ایک ایسا گائوں، جہاں ایک ہی کنبہ آباد ہو گا۔ کئی ممالک میں اقتصادی راہداریاں تیزی سے تکمیل کے قریب ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں سے امریکی گھمنڈ، زعم کسی نئے تصور کو خاطر میں کیوں لاتا کہ25سال کی بربریت بے نتیجہ رہی، خطے سے بے آبرو ہو کر نکلنا بنتا نہیں تھا۔ افغانستان، ایران، عراق، سوڈان، لیبیا، شام، یمن سے لے کر درجنوں ممالک جنگ و جدل، خانہ جنگی، افراتفری، انارکی کے حوالے رکھے۔ ٹریلین ڈالرز کی خطیر رقم جھونکی، جدید اسلحہ گولہ بارود، ڈرون، خلا، زمین، سمندر، خطے کے اکثر ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجائے رکھی۔ ایک کروڑ سے زیادہ مکین لقمہ اجل بنے۔
مغربی و افریقی سمندروں سے تابخاک کاشغر آگ اور خون سے لت پت ماحول رہا۔ بستیوں کی بستیاں نیست و نابود ہوئیں کہ نیو ورلڈ آرڈر یا 21ویں صدی پر امریکی تسلط کا خواب یہی تھا۔
لگتا ہے، چین کی بروقت آمد نے پانسہ پلٹ دیا۔ چین نے پلک جھپکتے برق رفتاری سے یورپ، افریقہ، ایشیا کو ایک راستے، ایک حلقے، ایک کڑی کا حصہ بنانے کے لئے تجوریوں اور وسائل کا منہ کھول دیا۔ امریکہ کا سیخ پا ہونا بنتا ہے۔ چند سالوں سے امریکی تلخی دیدنی ہے۔ کڑی کا سب سے کمزور لنک پاکستان، پہلا غصہ عتاب ہمارے پر نازل ہوا چاہتا ہے۔ چند دنوں سے صورت حال سنجیدہ اور گمبھیر ہو چکی ہے۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے حالیہ بیانات اور امریکی کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو دیا گیا3گھنٹے پر مشتمل بیان، آنے والے دنوں میں امریکی عزائم کا پتہ دے رہا ہے۔ ’’ایک سڑک، ایک کڑی (OBOR)‘‘ کا منصوبہ چین کے لئے ناقابل دفاع رہے گا۔ بے شمار راستے اور سڑکیں دنیا کو آپس میں جوڑ رہے ہیں۔ یہ منصوبہ توسیع پسندانہ عزائم کی خبر دے رہا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ، گلوبلائزیشن کی نفی ہے۔ OBORکو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے جو ہمارے لئے ناقابلِ قبول ہے۔
چین سے تعاون صرف اور صرف دہشت گردی (دہشت گردی کی امریکی تعریف مخصوص ہے) پر ہو گا۔ چین کا ہر ایسا کام، یا ہر وہ متعین راستہ جو ہمارے لئے بے فائدہ ہے اس کو ہم زبردستی روکیں گے‘‘۔
صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی، امریکی وزیر دفاع، مشیر برائے قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف سب بیک زبان کہ ’’پاکستان کو صرف ایک آخری موقع دے رہے ہیں‘‘۔ منہ سے نکلے الفاظ کی نوعیت کچھ بھی ہو، عملاً مطلب صاف ظاہر کہ سی پیک اور پاک چین بڑھتے ہوئے تعلقات وجہ نزاع ہیں۔
اہل وطن! پاکستان کو باز رکھنے کے لئے یہ گیڈر بھبکیاں ہرگز نہیں۔ کانگریس کے سامنے دیئے گئے بیان میں جنرل جیمز میٹس نے تفصیل ہی تو دی ہے کہ ’’ہم پاکستان کی مغربی سرحدوں پر اتحادیوں کی لڑاکا فوج بمع جدید ہوائی طاقت تعینات کر رہے ہیں۔ کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے ایکشن کے لئے موجودہے‘‘۔
حال ہی میں خواجہ آصف کو امریکی دورے کے دوران امریکی مشیر سیکورٹی اور وزیر دفاع کی کھلے عام دھمکیوں اور اندرون خانہ بذریعہ وزیر خارجہ سفارتی زبان میں ایسی دھمکیوں کی لسٹ یقیناً پکڑائی ہو گی۔ یہی وجہ کہ خواجہ آصف آگ بگولہ واپس آئے ہیں۔
پاکستان اپنی70سالہ تاریخ کے نازک، بھیانک، اندوہناک دور سے گزر رہا ہے۔ دشمن گھاٹ بنا چکا، تاک لگائے، یقینی مار پر ہے۔ اگر یہ سب سچ جو یقیناً سچ ہے تو2014سے امپائر کون سا کھیل کھلوا رہے ہیں، نادیدہ قوتوں سے سوال وطن عزیز کو عدم استحکام کی نذر کیوں کر دیا گیا؟
مخدوم جاوید ہاشمی کی کہی کہانی حرف بحرف سچ ثابت ہو رہی ہے۔ بھلا اداروں کی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہماری عسکری قیادت صورت حال سے واقف ہے؟ یقیناً واقف ہے۔ تو بھی ایسی امکانی صورت حال سے نبٹنے کا بندوبست ہے، زمینی صورت برعکس ہے۔
کیا ہم ہتھیار ڈال چکے ہیں؟ رینجرز کی احتساب عدالت کو اپنے قبضہ میں لینے کی کارروائی یہی کچھ راسخ کر گئی کہ وطن کی فکر ہماری ترجیح نہیں ہے۔ پھر تیار رہیں۔
جو جنگ ابھی شروع ہونی ہے، کیا ہم ہار چکے؟ خدا کے واسطے ابھی بھی وقت ہے، مارا ماری چھوڑو، جس شاخ پہ بیٹھے ہو اس کو مت کاٹو۔ وگرنہ 2014کی جو شروعات کہ، ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ خاکم بدہن 2018تک، سیاست نہ ریاست۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔