کرکٹ اب کاروبار بن گئی!

کرکٹ کو جنٹلمین کا کھیل کہا جاتا تھا۔ البتہ اپنے ملک میں اس کھیل سے جڑے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے، کم از کم یہ لکھنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ پی سی بی اور اس سے جڑے معاملات اگر یوں ہی چلتے رہے تو جلد اس کھیل سے وابستہ لوگ سراپا احتجاج ہونگے۔

شروعات تو ویسے ہو ہی چکی ہیں، چند دنوں سے قذافی اسٹیڈیم کے داخلی دروازے پر کرکٹ کرپشن، سلیکشن میں نا انصافی پر مظاہرہ ہو رہا ہے، تو دوسری جانب ایل سی سی اے گراونڈ پر لاہور وائٹس اور یو بی ایل کے مابین قائد اعظم ٹرافی میچ کے دوران ایک نوجوان نے یہ کہہ کر خود سوزی کی کوشش کی کہ اسے منتخب کرنے اور کھلانے کے لئے پیسے مانگے جا رہے ہیں۔

اگرچہ اس خبر پر میڈیا میں زیادہ شور شرابا نہیں ہوا، لیکن اس قسم کے واقعات کا سامنے آنا افسوس ناک پہلو ہے۔اب خواتین کرکٹ کے بگڑتے معاملات ہی دیکھ لیں، جہاں سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد الیاس کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے فارغ کر کے ڈسپلن کی کسوٹی پر چند ماہ پہلے خواتین کرکٹ کے معاملات سے علیحدہ کئے جانے والے باسط علی کو یو اے ای میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں ٹیم منتخب کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

دوسری طرف منیجر کے عہدے سے ہٹائی گئی عائشہ اشعر کو عارضی طور پر خواتین کرکٹ کی جنرل منیجر بنا کر بھونڈا مذاق کیا گیا ہے، اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان خواتین کرکٹ میں سیاست اور اثر و رسوخ کے معاملے میں مردوں کی کرکٹ بہت پیچھے ہے، ورنہ کھلے عام پی سی بی کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والی سابق کپتان ثنا میر سینٹرل کنڑیکٹ میں بھی ہیں اور ان کی کھلاڑیوں کو کیمپ سے دور رہنے کی ای میل بھی پی سی بی کا کھلے عام مذاق اڑا رہی ہے، البتہ مصلحتوں کا شکار پی سی بی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

عمر اکمل کو دس لاکھ جرمانہ اور تین فرسٹ کلاس میچوں کی پابندی کی سزا سنانے والے بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار سابق ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان کے حوالے سے بھی کئی ماہ گذر جانے کے باوجود بے بسی کی تصویر بنے ہیں۔ بنا کام کئے ذاکر خان پی سی بی خزانے سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے گھر لے جاتے ہیں، پی سی بی کے لئے سبکی کا نیا معاملہ اس وقت سامنے آیا، جب بطور چیف سلیکٹر انضمام الحق دبئی بورڈ کے خرچے پر گئے اور وہاں سے خبر اڑی کہ ٹی 10کے نام سے متعارف کروائی جانے والی لیگ میں سے مبینہ طور پر ایک ٹیم پی سی بی کے تنخواہ دار چیف سلیکٹر کے بھائی کی حق ہلال کی کمائی سے خریدی گئی ہے، جس میں کچھ حصہ چیف سلیکٹر کا بھی ہے۔

کسی لیگ میں کوئی ٹیم خریدنا ہرگز بری بات نہیں، البتہ اگر ہے تو کیا انضمام الحق نے اس بارے میں بورڈ کو اعتماد میں لیا تھا؟؟ یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بطور چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنی منتخب کردہ ٹیسٹ ٹیم میں شان مسعود کو منتخب کرتے ہیں، ضرور انضمام الحق بڑے کرکٹر ہیں، البتہ وہ بطورچیف سلیکٹر کیا خالصتاً میرٹ پر آئے ہیں۔

اس حوالے سے اب لاہور سے لے کر پورے پاکستان کو پتہ چل گیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی سے لے کر پی سی بی میں تقرری کا فارمولہ کیا ہے؟ معاملات محض یہاں تک محدود نہیں ملک کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کے نام پر پاکستان کرکٹ بورڈ ہر سال بجٹ سے کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے، البتہ اس ٹورنامنٹ کے بہترین بولرز اور بیٹس مینوں کو سلیکشن کمیٹی کتنا سنجیدہ لیتی ہے، یہ پورا پاکستان جانتا ہے۔

دوسری جانب قائد اعظم ٹرافی کیساتھ ہر سال نیا مذاق اب بورڈ کا وطیرہ بن چکا ہے، تازہ صورت حال اس اعتبار سے ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ ملک کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ کو اس بار اسپانسر ہی نہ مل سکا، مارکیٹنگ ٹیم سے بجائے اس بارے میں چیئرمین پی سی بی سوال کرتے، انہوں نے اس ڈپارٹمنٹ کے عماد حمید نامی شخص کو میڈیا منیجر بنا کر کام کرنے والے میڈیا ڈپارٹمنٹ کا گویا تمسخر اڑایا، ویسے پی سی بی کے اس اقدام پر مذکورہ شخص اور پی سی بی کے اعلیٰ حکام کی سوشل میڈیا پر خاصی جگ ہنسائی ہوئی۔

گویا میڈیا منیجر جو کسی دورے پر بورڈ اور ٹیم کا امیج بنانے کے کام پر مامور ہوتا ہے ، جب اسی کے انتخاب پر انگلیاں اٹھنے لگیں، تو کہنے کے لئے کچھ بچتا نہیں۔ اب بطور چیف سلیکٹر پی سی بی سے نکالے گئے ہارون رشید ہی کو لیجئے، موصوف کراچی میں نیشنل اسٹیڈیم کے چکر لگا رہے ہیں، نہ یہاں کوئی میچ ہو رہا ہے، نہ اکیڈمی فعال ہے، وہ بطور ڈائریکٹر انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پی سی بی سے وابستہ ہیں۔

ہارون رشید اب نیشنل اسٹیڈیم میں ڈیڑھ ارب روپے کے تزئین و آرائش کے منصوبہ کے معاملات دیکھیں گے، تو اندازہ کر لیں ، وہ پی سی بی میں نوکری کر رہے ہیں ، یا باقی لوگوں کی طرح انھیں بھی نوکری دی گئی ہے؟ ویسے اطلاعات یہی ہیں پی سی بی میں بیٹھے افراد پتلی تماشے کے کردار لگتے ہیں، ڈوریاں تو کوئی اور ہلا رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔