بلاگ
Time 25 اکتوبر ، 2017

کیا پختون خوا میں تبدیلی آنے کو ہے؟

— فوٹو:فائل

مئی 2013 میں ہونیوالے عام انتخابات کے بعد سے اب تک 50 ضمنی انتخابات ہوئے۔ جن میں ہربار ہرسیاسی جماعت نے جیت کے دعوے کئے۔

اگلے عام انتخابات سےچند ماہ پہلے پھر سے ایک بار پشاور کے حلقہ این اے 4 میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ جس میں پھر سے اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہوگا جبکہ باقی سیاسی جماعتیں بیگانی شادی میں دیوانوں کی طرح انتخابی مہم چلارہی ہیں۔

ہمیشہ کی طرح اس ضمنی انتخابات میں بھی کہاجارہا ہے کہ فتح تحریک انصاف کامقدر بنےگی اور اس کی وجہ یہ کہ چونکہ یہ سیٹ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے جیتی تھی۔ اس کے علاوہ چونکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ لہٰذا جیت تحریک انصاف کا ہی مقدر بنے گی۔

اگر صوبہ خیبر پختونخوا کی انتخابی تاریخ دیکھی جائے۔ توپتہ لگتاہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام نے کبھی بھی ایک سیاسی جماعت کو دوسری بارمنتخب نہیں کیا۔

مثال کے طور پر 2002 کےعام انتخابات میں فتح متحدہ مجلس عمل کے حصےآئی۔ 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی حکومت لے اڑی اور 2013 کے عام انتخابات میں عمران خان کی تحریک انصاف تبدیلی لانے کیلئے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

یہ حقیقت ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ اپنا فیصلہ عام انتخابات میں تبدیل کرتے ہیں لیکن اس بار عام انتخابات میں وقت کم رہ جانے کی وجہ سے لگ رہا ہےکہ این اے 4 کے ووٹرز تبدیلی کے دعوے کرنے والی جماعت کو ووٹ نادےکراپ سیٹ کرنےوالے ہیں۔

ایسی صورتحال میں اگر پشاور کے حلقہ این اے 4 کے ووٹرز کے پاس 3 عام انتخابات میں ایم ایم اے، اے این پی اور تحریک انصاف کو آزمانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایسی دوجماعتیں ہیں۔ جنھیں پشاور کے ووٹرز ان ضمنی انتخابات میں منتخب کرسکتے ہیں۔

اگر ملکی سیاست اور کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو پشاور کے اس حلقے کے ووٹرز کیلئے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نواز لیگ بہتر آپشن دکھائی دیتی ہے۔ ویسے بھی پانامہ لیکس کیس فیصلہ آنے کے بعد سابق وزیراعظم ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا رورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں ہمدردی کاووٹ بھی مل رہاہے۔ جس کا ثبوت لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والا ضمنی انتخاب ہے۔

پشاور کے اس حلقے میں اگر انتخابی حالات کودیکھاجائے تو نواز لیگ کو جے یو آئی ف اور قومی وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہے جوکہ خیبرپختونخوا میں اہم حیثیت رکھتی ہیں۔

2013 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 40.31 فیصد رہاتھا۔ لیکن ضمنی انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے معاملے میں کم رہتا ہے جس کا نقصان عام انتخابات میں جیتنے والی جماعت کو ہوتا ہے۔

پچھلے عام انتخابات کے نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو نواز لیگ کے امیدوار پر تقریباً 35 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی جبکہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں جماعتوں کو تقریباً 12، 12 ہزار ووٹ ملے تھے۔ 

اسی طرح صوبائی حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کے امیدوار کو تقریباً 16 ہزار ووٹ ملے تھے جوکہ اس ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی حمایت نہیں کررہی۔

اب اگر موجودہ سیاسی حالات اور انتخابی حقائق کودیکھاجائے تو صوبے میں غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف مقبولیت کھوچکی ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں جو جوش و جزبہ 2013 کے عام انتخابات کے وقت تحریک انصاف کے حق میں تھا۔ دم توڑ چکاہے۔

ایسے میں اگر 2013 کے عام انتخابات کی نسبت ضمنی انتخاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے تو اس کا فائدہ نواز لیگ کو ہوگا۔

اس کے علاوہ پچھلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو پڑنے والے 39.79 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں نواز لیگ کو پڑنے والے14.73 فیصد ووٹوں میں اگر اتحادی جماعت جے یوآئی ف کے 9 فیصد اور قومی وطن پارٹی کے تقریباً ایک فیصد ووٹوں کوشامل کیاجائے تو نواز لیگ اندازً 25 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب رہے گی جوکہ تحریک انصاف کے 39فیصد ووٹوں کے مقابلے تقریباً 14 فیصد کم ہے۔

ان حقائق کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو ممکنہ کم ٹرن آؤٹ کی وجہ سے جیت کا مارجن 8 سے 10 ہزار ووٹوں سے زیادہ نہیں ہوگا۔

ایسی صورتحال میں پشاور کا یہ ضمنی انتخاب اگلے عام انتخابات کا صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹریلر ہوسکتا ہے۔ جس کے نتائج دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ جوبھی جماعت اس حلقے میں جیت اپنےنام کرتی ہے۔ وہ ممکنہ طور پر اگلے عام انتخابات کے بعد صوبائی حکومت بناسکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔