حلقہ این اے 4 میں ترقیاتی سرگرمیاں

— فوٹو:فائل

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار کے ضمنی انتخابات نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ پورے ملک کے سیاسی منظر نامے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ 

عمومی رائے یہ ہے کہ این اے چار کے ضمنی انتخاب کے نتائج اگلے سال عام انتخابات میں ووٹروں کے ذہنی رجحان کی عکاسی بھی کرے گا۔

اس حلقے کا انتخاب صوبے میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ نشست پی ٹی آئی کے ایم این اے گلزار خان کی وفات سے خالی ہوئی ہے اور اسے ہر قیمت پر جیتنا تحریک انصاف کا مشن ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اس حلقے سے تین بار الیکشن جیت چکی ہے اور وہ اسے اپنا حلقہ سمجھتی ہے جسے ہر صورت جیت کر یہ ثابت کرناچاہتی ہے کہ پشاور عوامی نیشنل پارٹی کا سیاسی گڑھ ہے، یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی نے دو مرتبہ یہاں انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔

سابق ڈپٹی اسپیکر خوشدل خان اس حلقے سے اے این پی کے امیدوار ہیں۔ 

وفات پانے والے ایم این اے گلزار خان کے فرزند اسد گلزار اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں ہمدردی کے ووٹ بھی مل سکتے ہیں۔

پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی کو حلقے کی سیاست میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اسد گلزار کے انتخابی جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔

 وفاق میں برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے یہ حلقہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہ انتخاب جیت کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ تحریک انصاف نے تبدیلی لانے کا وعدہ پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے عوام کا اس پر اعتماد نہیں رہا۔

وفاق اور صوبے میں برسراقتدار جماعتیں اس حلقے میں ترقیاتی منصوبوں پر بھی تیزی سے کام کر رہی ہیں جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی لیا تھا لیکن وفاقی اور صوبائی حکومت نے ترقیاتی کاموں کا جواز پیش کرکہ الیکشن کمیشن کو خاموش کردیا۔

تحریک انصاف اس حلقے میں مساجد اور ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی کے نظام سے منسلک کر رہی ہے جبکہ گلی، کوچوں اور نالیوں کی پختگی پر بھی کام ہورہا ہے۔

 صوبائی حکومت نے اس کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ حلقے میں تمام ترقیاتی کام سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہیں، ان کا ضمنی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں جبکہ وفاقی حکومت یہاں بجلی کے ٹرانسفارمروں کی تنصیب اور گیس پائپ لائن بچھانے پر کام کر رہی ہے۔

محکمہ سوئی گیس کے مطابق گیس لائن بچھانے کی منظوری مرحوم گلزار احمد خان کے دور میں دی گئی، جاری ترقیاتی کام سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے جس کے احکامات وزیراعظم پاکستان نے دیے تھے اور اس منصوبے کا بھی ضمنی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔

سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق حلقہ این اے 4کے ضمنی انتخاب میں اگرچہ چودہ امیدوار مدمقابل ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کے چھ امیدواروں کے علاو ہ آٹھ آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔

ایک آزاد امیدوار الحاج لیاقت علی کو ملی مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہے تاہم اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے ارباب عامر ایوب، اے این پی کے خوشدل خان اور مسلم لیگ ن کے ناصر موسیٰ زئی کے درمیان ہوگا، اگر مقابلے کا حلقہ مزید تنگ کیا جائے تو اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے درمیان ہے۔

 لیگی امیدوار کی پوزیشن جے یو آئی، راہ حق پارٹی اور قومی وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہونے کے بعدمضبوط ہوگئی ہے جبکہ تحریک انصاف کو صرف تحریک منہاج القرآن کی حمایت حاصل ہے۔

تحریک لبیک پہلی بار اس حلقے میں ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے لیکن جیتنے کی دوڑ میں شامل نہیں تاہم وہ دائیں بازو کی جماعتوں کا ووٹ بینک توڑ سکتی ہے۔

شکیل فرمان علی جیو ٹی وی میں رپورٹر ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔