31 اکتوبر ، 2017
سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت سے بننے والی دوجماعتوں میں اپنی قوت برقرار رکھنے اور قوت بڑھانے کا مقابلہ جاری ہے۔
کراچی میں پانی، صفائی ، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر خصوصا بلدیاتی مسائل حل نہ ہونے پر عوام میں شدید مایوسی ہے جس کے باعث مئیر کراچی کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
شہری عوام کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ میں اندرونی اختلافات بڑھنے لگے اور ساتھ ہی پی ایس پی نے وکٹیں حاصل کرنی شروع کردی ہیں جس سے یہ محسوس ہورہا ہےکہ پاک سرزمین پارٹی نے اسی طرح وکٹیں گرانے کا عمل جاری رکھا تو آئندہ چند ماہ میں شہری سیاست میں طاقت کا توازن تبدیل ہوسکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ الزام عائد کرتی ہے کہ نادیدہ قوتیں ایم کیوایم کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور ان کی جماعت کے رہ نماوں ، عہدیداروں، کارکنوں اور ممبران اسمبلی پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے دباو ڈالا جارہاہے۔
فاروق ستار کہتے ہیں ہم نے 22 اگست کے بعد پاکستان سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا ہے لیکن ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ میں اندرونی خلفشار بڑھ رہا ہے اور شہر میں بلدیاتی مسائل، صفائی اور پانی کی عدم فراہمی پر مئیر کراچی کے حوالے سے پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
دوسری جانب ڈپٹی مئیر ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت پارٹی کو ایک اور دھچکہ لگا ہے ساتھ ہی یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ کئی ایم پی ایز اور بلدیاتی منتخب نمائندے بھی شمولیت کے لئے تیار ہیں۔
ادھر مئیر کراچی کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے بھی عدم اعتماد کا اظہار ہے اور بلدیاتی ایوان کے باہر مئیر کے خلاف بینرز بھی آویزاں کردئیے گئے ہیں ۔
ایسا لگ رہا ہے کہ مئیر کراچی کے معاملے پر ایم کیوایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے جبکہ موجودہ قیادت اس معاملے پر اہم قوتوں اور پارٹی رہ نماوں کی جانب مکمل اعتماد حاصل نہیں کرپارہی۔
ذرائع یہ بھی بتارہے ہیں کہ بیرون ملک سے بھی ایم کیوایم پاکستان کے کچھ رہ نما پی ایس پی میں شمولیت اختیار کریں گے۔
کراچی میں موجود کئی ایم پی ایز، رہ نما اور منتخب بلدیاتی نمائندے نومبر میں مصطفی کمال سے ہاتھ ملالیں گے اور ان تمام معاملات میں ایم کیوایم پاکستان تذبذب کا شکار نظر آتی ہے اور اب تک قیادت کی جانب سے واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی ۔