06 نومبر ، 2017
تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری کیے گئے پیراڈائز پیپرز میں انکشاف ہوا ہے کہ روس نے بزنس ایسوسی ایٹ جیرڈ کشنر کے ذریعے ٹوئٹر اور فیس بک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔
دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک میں ایک سرمایہ کار کا تعلق روس کی دو سرکاری فرمز سے تھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کرملن کی حساس نوعیت کی سیاسی ڈیلز کروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق کرملن کی ایک فرم وی ٹی بینک نے ٹوئٹر میں 2011 میں خاموشی سے 191 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ ایک اور فرم گیزپروم نے ڈی ایس ٹی گلوبل کے اشتراک سے فیس بک میں بھاری سرمایہ کاری کی۔
تاہم دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود کرملن کے ٹوئٹر یا فیس بک پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
دوسری جانب روسی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ کونستین تین کوسا شیو نے پیراڈائز پیپر لیکس کی جانب سے فیس بک اور ٹویٹر میں روسی سرمایہ کاری کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا اس ڈیل کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے۔
کونستین تین کوساشیو نے پیراڈائز لیکس میں روس کے حوالے سے پیش کی جانے والی سرمایہ کاری کو ’’جذبات ابھارنے اور الفاظوں کا کھیل‘‘ قرار دیتے ہوئےکہا پیپرز کو خوبصورت انداز میں پیش کر کے دھوکا دیا گیا ہے لیکن جب اس کی وجوہات سامنے آئیں گی تو سب کچھ قانون کے مطابق ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے الفاظوں سے کھیل کر اس ڈیل کو پیش کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سرمایہ کاری کے ذریعے مغربی جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کی گئی ہو۔
خیال رہے کہ آئی سی آئی جے کی جانب سے جاری کی گئی لیکس میں1 کروڑ 34 لاکھ سے زائد دستاویزات سامنے آئی ہیں۔
پیراڈائز لیکس میں 25 ہزار سے زائد آ کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا ہے جبکہ لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے۔
یہ دستاویزات سنگاپور اور برمودا کی دو کمپنیوں سے حاصل ہوئیں۔ پیرا ڈائز پیپرز جرمن اخبار نے حاصل کیے اور آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیے۔
دستاویزات میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے جبکہ ان پیپرز میں 1950 سے 2016 کا ڈیٹا موجود ہے۔
اس تحقیقاتی کاوش میں 67 ممالک کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا جن میں آئی سی آئی جے کے رکن اور دی نیوز کے سینیر رپورٹر عمر چیمہ بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں صرف جنگ گروپ انٹرنینشل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلزم سے وابستہ ہے۔
یہاں یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آف شور کمپنی غیرقانونی طور پر قائم کی گئی ہو۔