Time 06 نومبر ، 2017
بلاگ

سولہ جون 96:سائیں گنجا مائی جھاٹو کون تھے؟

کرنے والے تھوڑی سی محنت مزید کرلیں تو عوام پر یہ انکشاف ہوجائے گا کہ ان میں سے پچانوے فیصد اپنی اپنی قسم، ماڈل اور سائز کے’’اسحاق ڈار‘‘ ہی ہیں۔کسی نے جمہوریت، کسی نے حب الوطنی اور کسی نے روحانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔

زیادہ نہیں ان کی تھوڑی تھوڑی سی ’’کھدائی‘‘ تو کرکے دیکھو کس طرح حرام کاری اور حرام خوری کا’’تیل‘‘ اور ’’گیس‘‘ برآمد ہوتی ہے۔ یہ سب چلتے پھرتے تیل کے کنوئیں ہیں۔

لوٹی ہوئی دولت باہر سے لانے کا جوکھم کرنے یا ڈول ڈالنے کی ضرورت نہیں ، صرف مقامی طور پر ان کی’’قرقیاں‘‘ ہی کرلو تو پاکستان کے پورے نہ سہی آدھے قرضے تو ضرور اتر جائیں گے لیکن اس کی تفصیل پھر سہی کیونکہ آج آپ کو ایک ایسا کالم پڑھانا ہے جو16جون1996کو شائع ہوا، میرے کالموں کے اک مجموعہ میں بھی شامل ہے۔

اس کالم کا عنوان تھا ’’سائیں گنجا اور مائی جھاٹو‘‘ نوش فرمائیے۔

’’یہ کہانی میری نہیں ہے البتہ میں نے سنی ضرور ہے اور یہ کہانی کسی ایک فرد کی کہانی بھی نہیں ہے بلکہ ایک بوڑھی عورت اور بوڑھے مرد کی کہانی ہے اور صرف ان دو بوڑھوں کی ہی نہیں بلکہ ایک جوان عورت اور جوان مرد کی کہانی بھی ہے اور یہ ایک چھوٹے سے معصوم بچے اور اک ننھی سی معصوم بچی کی کہانی بھی ہے۔

اس اذیت ناک کہانی میں، اس دھوکے اور فریب سے لبریز کہانی میں اور اس خون پسینے میں شرابور کہانی میں عورت، مرد، بوڑھے، جوان، بچے اور بچیاں سبھی شامل ہیں اور یہ کہانی ان میں شامل ہے۔

یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کہانی کے تمام کردار کہانی میں اور کہانی ان تمام کرداروں میں یوں رچی بسی ہوئی ہے جیسے------بچھوؤں میں ڈنگ ،جیسے بھیڑیوں میں خونخوار جبڑے،جیسے سانپوں میں زہر،جیسے اونٹ میں کینہ ،جیسے طوطے میں بے وفائی ،جیسے رند کی رگوں میں شراب ،جیسے تھور میں کانٹے،جیسے سیاستدانوں میں جھوٹ ،چھوٹے ہوں یا بڑے، نر ہوں یا مادہ، اس کہانی کے ہر کردار میں ایک’’قدر مشترک‘‘ ضرور ہے یعنی یہ سب کے سب لٹے پٹے اور استحصال شدہ کردار ہیں۔

ان سب کو عزت کا جھانسا دے کر ان کی بے عزتی کی گئی، ان کے پیٹ بھرنے کا وعدہ کرکے ان کے پیٹ کاٹے گئے، انہیں چھت کا چکمہ دے کر ان کے سروں سے آسمان بھی کھینچ لیا گیا اور انہیں خلعت فاخرہ کی خوشخبری سنا کر ان کے جسموں سے چیتھڑے بھی نوچ لئے گئے، انہیں 21ویں صدی دکھا کر ان کی روحوں میں14ویں صدی اتاردی گئی۔

کہانی کا کمال یہ کہ اس کے تمام لٹنے والے کرداروں کو ٹھگوں کے ہاتھوں لٹنے کے لئے بنارس نہیں جانا پڑا۔ یہ سب کے سب اپنے اپنے شہروں میں اپنی اپنی’’خواہش‘‘ کے تحت لٹے ہوئے لوگ ہیں۔ بنارسی ٹھگ تو خوامخواہ بدنام ہیں کیونکہ اس کہانی کے سب کردار جس بری طرح لوٹے گئے ہیں، بنارسی ٹھگ بھی دیکھ لیتے تو ہمارے ان ٹھگوں کو کندھوں پر اٹھا کر ان کی ’’قیادت‘‘ کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے، کروڑوں اربوں کے قرضے لیتے، پھر انہیں معاف کراتے اور مہا ٹھگوں کی سرپرستی میں معززین کہلاتے۔

قارئین!کہانی شروع بھی نہیں ہوئی کہ ختم بھی ہوگئی لیکن سچائی کی قسم میں اس کہانی کے تمام کرداروں کو متعارف کرائے بغیر کالم ختم نہیں کروں گا، کیونکہ اب تک صرف لٹنے والوں کا ذکر ہوا ہے، لوٹنے والوں کی بات نہیں ہوئی یعنی آپ کے کا لم نگار بٹا کہانی کار نے ابھی تک اس کہانی کے دو انتہائی کرداروں کے کردار اور کرتوت پر روشنی نہیں ڈالی۔

آخر دم تک کہانی کے دو مرکزی کرداروں کا ذکر نہ کرنے کے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کہانی کا حسن سسپینس میں پوشیدہ ہوتا ہے اور کلائمکس کو کلائمکس یعنی کہانی کے آخر پر ہی آنا چاہئے۔ بہرحال کہانی کی تکنیک پر لعنت بھیج کر ہم کہانی کے دو مرکزی کرداروں یعنی سائیں گنجے اور مائی جھاٹو کی طرف آتے ہیں جنہوں نے باری باری کہانی کے دیگر کرداروں کو بے وقوف بنایا۔

اس کہانی کے مظلوم کرداروں نے اپنے اپنے دکھوں سے نجات کے لئے خود کو کبھی’’سائیں جی‘‘ اور کبھی’’مائی جی‘‘ کے حضور پیش کیا۔ ان کا خیال تھا یہ دونوں بہت’’پہنچی ہوئی‘‘ ہستیاں ہیں جن کے پھونک مارنے، تعویذ کرنے اور دم دارو سے ان کی محرومیوں، غربتوں کا علاج ہوجائے گا، ان کے خالی پیٹ بھر جائیں گے، ننگے بدن ڈھک جائیں گے، رستے زخم بھر جائیں گے لیکن کبھی’’سائیں گنجے‘‘ اور کبھی’’مائی جھاٹو‘‘ نے ان کے ساتھ ہاتھ کردیا۔

سائیں جی اور مائی جی ان سب سے نذر نیاز وصولتے، چڑھاوے قبولتے رہے------لوگ بد سے بدتر ہوتے گئے۔ سائیں گنجے کا چہرہ مزید سرخ اور مائی جھاٹو مزید پرجمال اور پرجلال ہوگئی۔‘‘

قارئین! ذہن پر زور ڈالیں اور بتائیں سائیں جی اور مائی جی کون تھے؟

یہ کالم روزنامہ جنگ میں 6 نومبر کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔