بلاگ
Time 07 نومبر ، 2017

مارشل لا یا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کیوں؟

حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو اس کے غیر آئینی طریقے سے خاتمے کی افواہیں ہر لمحے گردش کرتی رہتی ہے۔

پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی باتیں ایسے ہوتی ہیں جیسے محلے کے تندور پر گاہکوں کے پھیرے اور گپ شپ۔ 

ماضی قریب پر نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نواز اپنی مدت حکومت پوری کرنے والی ہو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر خبریں اور تجزیئے دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اب گئی کہ تب، آج مارشل لالگا کہ کل ۔ ایک افراتفری اور غیر یقینی کی فزا برقرار رکھی جاتی ہے۔

پانامہ لیکس کیس میں دبئی کے اقامے کو ظاہر نہ کرنے پر نواز شریف نااہلی کے فیصلے کے ساتھ ایک بار پھر مارشل لاء لگنے یا ٹیکنوکریٹ حکومت کی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔

 کچھ موسمیاتی تجزیہ کار تو یہاں تک اندازے لگا رہے ہیں کہ معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سنبھالنے کے لیے ٹیکنو کریٹس حکومت قائم ہوگی اور اس کی قیادت من پسند سیاست دان کریں گے ، ان کا ماننا ہے کہ اس معاملے میں معین قریشی اور شوکت عزیز کے ادوار میں ہونے والے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جائے گا۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مارشل لاء یا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں؟ وہ کون سے حالات ہیں جن کا 70 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا؟

اگر سابق وزیراعظم کے بچوں کے نام پانامہ لیکس میں سامنے آئے ہیں اور ان کے خلاف نیب میں ریفرنسز زیرسماعت ہیں تو کیا ہو گیا؟ بد عنوانی یا اثاثے چھپانے پر نا سہی دبئی کا اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے کی کمپنی کا چیئر مین ہونے کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا گیا تو اس کا مطلب کیا یہ نکالا جائے کہ غیر جمہوری عمل ہو گا۔

ایک وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد جمہوریت کی گاڑی اسی طرح رواں دواں ہے ،  بالکل اسی طرح کہ جیسے یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف کے ادوار میں ہوا۔

آج شاہد خاقان عباسی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہیں اور حکومت بھی مناسب ہی چل رہی ہے جہاں تک مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے اختلافی بیانات کا تعلق ہے تو اسے ہی جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے نا کہ کسی طرح کی سازش۔

پھر مارشل لاء یا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کیوں؟

صرف اس لیے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے علاوہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور ان کے بیٹوں پر نیب ریفرنسز میں فردِ جُرم عائد ہوچکی ہے یا اس لیے کہ نواز شریف بوجہ بیرون ملک میں قیام پزیر رہے اور احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

ان تمام حالات سے کیافرق پڑتا ہے؟

گذشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر یہ باور کروا چکے ہیں کہ فوج کے لیے سب سے اہم ریاست پاکستان ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر مارشل لاء یا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی خبروں کو بھی رد کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے ہو سکتا ہے، فوج سے نہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ مارشل لاء لگانے والوں کو جمہوری نظام سے کیا تکلیف ہورہی ہے؟

دفاعی بجٹ میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے، خارجہ پالیسی میں ان کی منشا شامل ہوتی ہے۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن سے وزیراعظم اور آرمی چیف ایک ساتھ ملتے ہیں۔ 

افغانستان کادورہ آرمی چیف کرتے ہیں جس کا نتیجہ آرمی پبلک سکول پر ہونیوالے دہشت گرد حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصوری کی ہلاکت کی شکل میں سامنے آتا ہے اور سب کچھ اچھے انداز سے ہو رہا ہے۔

جب یہ سب کچھ ہورہا ہے تو پھر مارشل لاء لگا کر بدنامی اور سیاسی جماعتوں سے بگاڑ پیدہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

جہاں تک بات ہے معیشت کی تو حالات ابھی اس نہج پر نہیں پہنچے کہ اسٹیبلشمنٹ کو فکر لاحق ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ خراب معاشی حالات کی جانب آرمی چیف توجہ دلا چکے ہیں مگر کیا ان کے اس بیان کو مارشل لاء لگانے سے جوڑا جانا چاہیے ؟

موسمی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ مارچ میں ہونیوالے سینیٹ انتخابات سے قبل عام انتخابات کرائے جا سکتے ہیں تاکہ نواز لیگ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت میں پنی بات منوا سکتی ہے تو ن لیگ کی سینیٹ میں اکثریت سے اسے کیا فرق پڑے گا؟

آئینِ پاکستان میں کسی غیر جمہوری اقدام کی کوئی گنجائش نہیں لیکن گذشتہ ادوار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سیاسی جوتشی کہتے ہیں کہ جس طرح 1993 میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان تناؤ کی وجہ سے فوج نے دونوں سے استعفی لے کر معین قریشی کو قائم مقام وزیراعظم بنایا تھا جسے ’کاکڑ فارمولا‘ بھی کہتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کو ان ہی کی پارٹی کے صدر فاروق لغاری کے ذریعے ہٹایا گیا تھا اسی طرح موجودہ حکومت برطرف کرکے کچھ عرصے کے لیے ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لایا جاسکتا ہے ،لیکن ایسا ممکن نہیں کیوں کہ موجودہ صدر تو نواز شریف کے ممنون ہیں اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ان کے نہایت قابل اعتماد رفیق اور ان حالات میں پارٹی سربراہ کے ساتھ تناؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ 1993 میں نہ تو آزاد میڈیا تھا اور نہ ہی جنوبی ایشیائی خطے پر امریکہ براہ راست موجود تھا۔ نہ بھارت دنیا میں معاشی ٹائیگر بن کر ابھر رہا تھا اور نہ ہی افغانستان میں اپنا اثر بڑھا رہا تھا۔

نہ ہی پاکستان چائنا اکنامک کاریڈور جیسا کوئی منصوبہ تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا جس کے لیے ایک مستحکم حکومت کا قیام ضروری ہے ۔

ملک میں 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے تین ماہ کے لیے قائم مقام ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ پر مبنی حکومت بن سکتی ہے اور سیاسی جماعتیں اس سے زیادہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کو برداشت نہیں کریں گی۔

آخر میں سوال پھر وہی،

ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل کیوں ہو گا؟

جہاں تک شریف خاندان ، اسحاق ڈار اور ان کے بیٹوں پر بدعنوانی کے الزامات کا تعلق ہے تو ان کے خلاف نیب میں ریفرنسز زیر سماعت ہیں لیکن موسمیاتی تجزیہ کار پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ان مقدمات کا فیصلہ بھی 28 جولائی کے سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں آ سکتا ہے۔ جس کے بعد شریف خاندان کو کم از کم کچھ عرصے کے لیے ہی سہی سیاسی سین سے آؤٹ کردیا جائے گا۔

 ایسی صورت حال میں بھی مارشل لاء لگا کر یا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لا کر ایک بار پھر سے دامن کیوں داغ دار کرنے کی ضرورت ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔