21 نومبر ، 2017
اسلام آباد: پیپلزپارٹی کی جانب سے نااہل شخص کو پارٹی سربراہی سے روکنے کے لیے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2017 قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے مسترد ہو گیا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 203 میں ترمیم کا بل پیش کیا جس کے تحت نااہل شخص کسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
نااہل شخص ممبر اسمبلی بننے تک پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا، بل کا متن
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے بل پیش کیا جس میں کہا گیا ہےکہ ایک شخص جب تک پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود ممبر اسمبلی بننے کا اہل نہ ہو، نا اہل شخص باہربیٹھ کر سربراہ کے طور پر پالیسی ڈکٹیٹ کرےتو مناسب نہیں۔
نوید قمر نے کہا کہ انتخابات ایکٹ بل میں مزید ترامیم بھی ہوئی ہیں، جب ایک شخص کو فائدہ دینے کے لیے لاتے ہیں تو پورے ملک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، کوئی شخص پارٹی سربراہ بننے کا اہل کیسے ہے جب تک رکن بننے کا اہل نہ ہو؟
انہوں نے مزید کہا کہ آج جو حاضری نظر آرہی ہے کاش یہ حاضری گزشتہ ساڑھے چار میں ہوتی تو آج یہ قانون سازی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس ایوان کی عزت کرانا سب سے پہلے قائد ایوان کا کام ہوتا ہے، ایوان کی موجودگی ہی ایوان کا وقار بلند کرتی ہے، یہ ایوان صرف ہاتھ کھڑا کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر یہ بل پاس نہیں ہوتا تو ابھی ایک مرحلہ اور بھی ہے، بل مشترکہ اجلاس میں بھی جاسکتا ہے، پھر وہی نمبر گیم نظر آئے گا جو آج نظر آیا۔
وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی شدید مخالفت کی، وزیر قانون زاہد حامد نے بھی بات کرنے کی کوشش کی جس پر شاہ محمود بار بار بیچ میں بولتے رہے۔
نوید قمر کی جانب سے بل پیش کیے جانے کےبعد شاہ محمود قریشی نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں بار بار روکا۔
شاہ محمود قریشی نے زاہد حامد کی مخالفت پر کہا کہ وزیر قانون کو حق ہے کہ بل مسترد کردیں یہ اپوزیشن کا مشترکہ بل ہے لیکن حکومت گھبرا کیوں رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کاہ کہ قانون میں شرط تھی کہ نااہل شخص سیاسی جماعت کاسربراہ نہیں بن سکتا، اس شرط کو الیکشن ایکٹ کے ذریعے ختم کردیا گیا۔
بل پیش کیے جانے کے بعد ایوان میں شوروغل شروع ہوگیا اور ارکان شور شرابا کرنے لگے۔ شاہ محمود قریشی نے حکومتی ارکان کے شور شرابے پر کہا کہ وزرا ایوان کا ماحول خراب کررہے ہیں۔
ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے بولنے کی کوشش کی جس پر اسپیکر نے ان پر برہمی کا اظہار کیا اور بیٹھنے کی تاکید کی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بھی ہوئے۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 23 اکتوبر کو سینیٹ میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2017 کثرت رائے سے منظور کیا گیا، جس کے مطابق نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔
اس سے قبل سینیٹ نے ہی 22 ستمبر کو ایسا ہی ایک بل منظور کیا تھا جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کی دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں تجاوزات کھڑی کی گئیں اور ہم ان تجاوزات کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ غاضب مشرف نے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیاست سے ہٹانے کی کوشش کی تو آئین میں یہ شقیں ڈالی گئیں لیکن جب کوئی بڑا لیڈر مائنس ہوتا ہے تو پھر سیاست مائنس ہوت ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج ہم جن تجاوزات کو آئیں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ہٹایا تھا، اونچا بول کر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ پارٹی کے کارکن کریں گے، چند لوگوں کو 21 کروڑ عوام کی قمست کے فیصلے کا حق نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کی جنگ لڑی جا رہی ہے، ملک کو ایک دائرے میں سفر کروایا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جب کسی کو سیاست سے مائنس کیا جاتا ہے تو ایوان مائنس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو وقت ہم پر ہے ہم سے پہلے پیپلز پارٹی نے یہ وقت دیکھا لیکن نفرت یا تعصب میں ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جس سے جمہوریت کمزور ہو، ایسے قوانین بنانے کی کوشش نہ کی جائے جو پاکستان میں سیاست کو کمزور کرنے کی وجہ بنیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر ووٹنگ کرائی جس کے حق میں 98 اور مخالفت میں 163 ووٹ پڑے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیے گئے بل کی حمایت کی۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر قومی اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری کے بعد اسپیکر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا
حکمراں جماعت کے پاس اتحادیوں کو ملا کر قومی اسمبلی میں 213 ارکان کی عددی حیثیت حاصل ہے، جس میں مسلم لیگ (ن) کے 188، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 13، مسلم لیگ فنکشنل کے 5، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3، نیشنل پیپلز پارٹی کے 2، مسلم لیگ ضیاء اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے پاس مجموعی 116 ووٹ ہیں، ایوان میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 47، تحریک انصاف 33، متحدہ قومی موومنٹ 24، جماعت اسلامی 4، عوامی نیشنل پارٹی 2، مسلم لیگ (ق) 2، بلوستان نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ اور عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے ایک ایک ارکان ہیں۔
اس کے علاوہ ایوان میں 10 آزاد امیدوار بھی ہیں۔