22 نومبر ، 2017
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ملک کے لیے آصف زرداری سے بغیر کسی شرط کے ہاتھ ملانے کو تیار ہوں۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ آمروں کے کالے قوانین کو تحفظ دینے کے لئے تیار نہیں، اس کا ثبوت کل دیکھا گیا، پی ٹی آئی آمروں کی پالیسی پر گامزن ہے لیکن پیپلز پارٹی نے آمروں کے کالے قانون کی حمایت کی اس پر بہت افسوس ہوا۔
نواز شریف نے کہا کہ پیپلز پارٹی بہت عرصہ پہلے جس جدوجہد سے گزری ہے اسے قربانیوں کو اتنی جلدی فراموش کردینا سمجھ نہیں آتا، جمہوریت کے راستوں سے بھاگنے والوں کے لئے یہ کھلا پیغام ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے پر اتحادی جماعتوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں، یہ ان لوگوں کے لیے آنکھیں کھول دینے والی بات ہے جو ملک کو جمہوریت کے راستے پر نہیں چلنے دیتے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں موجود افراد کی ایک بڑی تعداد آمروں کے قانون کو تحفظ دینے کی حامی نہیں جب کہ پارلیمنٹ نے آمروں کے کالے قانون کو مسترد کردیا جو بڑی پیشرفت ہے۔
اس سے قبل احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ رولز آف گیم ایک جیسے ہونے چاہییں، ہمارے لیے عدلیہ کا کچھ اور معیار ہے اور ان کے لیے کچھ اور، جس کی وضاحت انہوں نے خود کرتے ہوئے کہا کہ میں تحریک انصاف کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سسیلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے الفاظ لکھنا عدلیہ کو زیب نہیں دیتا، ہمارے فیصلے جلد آجاتے ہیں جب کہ عدلیہ کا دہرا معیار سامنے آرہا ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے جو کام کیے پورا پاکستان تسلیم کر رہا ہے، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، خوشحالی آئی، جی ڈی پی ریٹ کہاں تک پہنچ گیا اور اللہ کے فضل کرم سے بجلی آئی اور بیروزگاری ختم ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چین کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا گیا، دھرنوں کے باوجود ملک نے ترقی کی اور دھرنوں کا یہ سلسلہ 2014 سے جاری ہے۔
نواز شریف کے کمرہ عدالت میں چٹکلے
سابق وزیراعظم نے کمرہ عدالت میں رپورٹر کی جیب سے والٹ گرتا دیکھا تو اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ والٹ کو جیب میں ڈال لیں، پرس کوئی نکال لے گا تو الزام مجھ پر آجائے گا۔
اس سے قبل نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو صحافی نے سوال کیا کہ استثنیٰ کے باوجود آج آپ آگئے ہیں جس پر نواز شریف نے کہا کہ دیکھیں کیسے کیسے دور سے ہم گزر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے ایک ہفتے کے لئے حاضری سے استثنیٰ دیے جانے کے باوجود عدالت پیشی کے موقع پر انہوں نے صحافی کے سوال پر دلچسپ جواب دیا۔
دوسری جانب عدالت سے واپسی کے بعد میاں نوازشریف کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس پنجاب ہاؤس میں جاری ہے جس میں نوازشریف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے مسترد ہونے والے بل سے متعلق بات چیت کی اور اسمبلی میں حاضری یقینی بنانے پر ارکان کا شکریہ ادا کیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں اسلام آباد دھرنے کی صورتحال پر غور کیا جارہا ہے اور وزیر قانون زاہد حامد ختم نبوت قانون کے حوالے سے بریفنگ دے رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ دھرنے والوں کی جانب سے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے پر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ اور مندرجات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
اس موقع پر اجلاس کے شرکا سے خطاب میں نوازشریف نے کہا کہ دنیا بدل رہی ہے، 1958کا مارشل لا 1977کے مارشل لا سے مختلف تھا، 1999کا مارشل لا 1977کے مارشل لا سے مختلف تھا، جس نے 99 میں مارشل لا لگایا اسے ملک میں گھسنے کی جرات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں صورتحال تبدیل ہوئی ہے،اس کو کوئی نہیں روک سکتا، یہ تبدیلی اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان جمہوری ملک ہے ، یہاں ووٹ کی طاقت کو یقینی بنائیں گے اور اگلے الیکشن تک پاکستان کے ہر گھرمیں یہ پیغام پہنچے گا۔
ایم این اے رجب بلوچ کی اسپتال میں عیادت کے موقع پر نمائندہ جیونیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ آج تک میثاق جمہوریت پر قائم ہوں، ہم نے کوئی این آر او کیا اور نہ آئندہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ذاتی رنجشوں کی بنا پر نہیں ملک کے لیے آصف زرداری سے ہاتھ ملانے کو تیار ہوں، پاکستان کی بہتری، آئین وقانون کی حکمرانی، جمہوریت اور ووٹ کی حرمت کے لیے بغیر کسی شرط کے ہاتھ ملانے کو تیار ہوں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے 70 سالہ تاریخ کو بدلنا ہوگا اور اسے بدلنا چاہیے، یہ سب کے فائدے میں ہے اور یہی ہماری نظریاتی جدوجہد ہے۔
نوازشریف نے کہا کہ پی ٹی آئی جیسی پارٹیاں بدقسمتی سے ہوتی ہیں، ان کی طرف زیادہ نہیں دیکھتا اور مجھے ان سے کوئی توقع بھی نہیں، ان کی سیاست جمہوری نہیں، یہ جھوٹ اور الزام تراشی کی سیاست کررہے ہیں، پی ٹی آئی والے پاکستان کا کلچر خراب کررہے ہیں جس کی ہم بھرپور مزاحمت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری ذات کا سوال نہیں، پاکستان کی بات کریں، میں ہر جدوجہد پاکستان کے لیے کررہے ہیں، اگر ذات کا سوال ہوتا تو مشرف نے ملک بدر کیا تو کوئی سمجھوتہ کرکے آسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا، اپنی ذات پر ملک کو ترجیح دیتا ہوں، ہر وہ کام کروں گا جس سے پاکستان کی خدمت اور اس کی سمت ٹھیک کرسکوں، یہی میرا مشن ہے اسی جذبے کے ساتھ گامزن ہوں، اپنے مشن ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے کیونکہ اسی میں سب کا بھلا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ مردم شماری کے بعد جو بل پاس ہونا تھا اسے پہلے دن ہی ہونا چاہیے تھا، اس میں اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا اس میں ملک کا وسیع تر مفاد ہے، یہ میری نااہلی کو ختم کرنے کا بل نہیں بلکہ پاکستان کو روشن مستقبل کی طرف لے جانے کا بل ہے، یہ جمہوری عمل کو آگے لے جانے والی بات ہے، پتا نہیں اس پر کیوں تحفظات سے کام لیا جارہا ہے۔
عدالت سے انصاف ملنے کے سوال پر نوازشریف کا کہنا تھا کہ ’جو ججز میرے کیس کے بینچ میں شامل تھے اگر ان سے انصاف مل سکتا تو میرا فیصلہ پاناما کے بجائے اقاما پر نہیں ہوتا اور یہ ایک بڑی دلیل ہے، اس بینچ کے ججز سے انصاف کی کوئی امید نہیں، انہوں نے پہلا فیصلہ ہی نا انصافی کی بنیاد پر دیا۔
انہوں نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ جس شخص نے پی سی او کا حلف اٹھایا ہو وہ کیا کسی کو انصاف دے گا، وہ کیسے کسی کو کیسے صادق و امین ڈکلیئر کرسکتا ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔