Time 30 نومبر ، 2017
پاکستان

کس نے کس طرح میڈیا بلیک آؤٹ کا حکم دیا، رپورٹ

ہفتے کی صبح پونے آٹھ بجے سیکورٹی فورسز کی جانب سے چلائی جانے والی پہلی گولی فیض آباد کے مقبوضہ انٹرچینج کو تحریک لبیک سے خالی کرانے کے مقصد سے آپریشن کے آغاز کی علامت تھی۔

ٹی وی چینلز نے خبر نشر کرنا شروع کر دی، ان میں سے کچھ نے کشیدگی کو اس کے تناسب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ چند گھنٹوں کے بعد پیمرا حکام کو ایک اہم محکمے کے اہم افسر جن کے تعارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کی جانب سے کال موصول ہوئی۔

انہوں نے ایک چینل کی بحالی کا مطالبہ کیا جسے 92 نمبر پر دھکیل دیا گیا تھا۔ پیمرا نے مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ زیر بحث چینل دھرنا شروع ہونے کے روز سے اشتعال انگیز کوریج میں مصروف رہا تھا۔ اس کی اشتعال انگیزی آپریشن کے لانچ ہوتے ہی اپنی معراج کو پہنچ گئی۔

تحریک لبیک کے اقدامات کو اس طرح شاندار بنا کر پیش کیا جارہا تھا کہ جیسے وہ اسلام کے سپاہی ہوں اور پولیس کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ عقیدے کا تحفظ کرنے والوں کو کچلنے والی جابر حکومت کے ایجنٹس ہوں۔

مظاہرین سے گتھم گتھا پولیس اہلکاروں کو ویڈیو فوٹیج میں دائرہ بنا کر پس منظر میں ترانے کے ساتھ چلایا جا رہا تھا جیسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین جنگ جاری ہو۔

پیمرا کی جانب سے بار بار انتباہ بھی چینل کو نظم و ضبط میں لانے میں کامیاب نہ ہوا جسے آخرکار کیبل پر نچلے نمبروں پر دھکیل دیا گیا تاکہ اس کی قابل اعتراض کوریج کی اہمیت کو کم کیا جا سکے۔ اس کے باوجود افسر نے چینل کو اس کی سابقہ پوزیشن پر بحال کرنے کے لئے اصرار کیا جسے صاف طور پر منع کر دیا گیا۔

جس کے بعد افسر نے نئی تجویز پیش کی۔ اگر مذکورہ چینل کو ناظرین تک رسائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو پھر میڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ ہونا چاہیے۔ اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اس نکتے پر بات چیت ختم ہوگئی۔ بمشکل آدھے گھنٹے بعد پیمرا حکام کو ایک اور کال موصول ہوئی۔ اس مرتبہ کال کرنے والے ایک وزیر تھے جنہوں نے وہ بات کی جو مذکورہ افسر نے پہلے ہی مسئلے کو حل کرنے کے لئے کہی تھی، یعنی میڈیا کی مکمل بندش۔

اس کی وضاحت کی گئی کہ اسلام آباد اور اہم محکمہ باہم متفق ہیں کہ میڈیا بلیک آؤٹ کیا جائے اور پیمرا ہدایت پر عمل کرنے پر مجبور تھا۔ آخرکار چینلز اسکرین سے غائب ہوگئے جبکہ پیمرا آرڈیننس کی دفعہ پانچ لاگو کر دی گئی جس کے مطابق ’’وفاقی حکومت جب ضروری سمجھے تو پالیسی کے معاملات پر ہدایات جاری کر سکتی ہے اور ایسی ہدایات پر عمل کرنا اتھارٹی کےلئے ضروری ہوگا اور اگر یہ سوال اٹھے کہ آیا کوئی معاملہ پالیسی کا ہے یا نہیں تو وفاقی حکومت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔‘‘

فیصلے کی یکساں طور پر تعریف اور مذمت کی گئی۔ ناقدین دلیل دیتے ہیں کہ وہ میڈیا جو فساد کی جانب مائل ماحول میں آگ بھڑکا رہا ہے اسے مختصر وقت کے لئے بند کرنے کی ضرورت ہے۔ صحافی برادری نے اس ’’شرمناک‘‘ اقدام کے لئے حکومت پر سخت تنقید کی جبکہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کس طرح ایک اہم افسر کی تجویز پالیسی فیصلے میں تبدیل ہوئی۔ چینلز 26 گھنٹے کے بعد بحال کر دیے گئے۔

جس طرح یہ بات متنازع رہی کہ بحالی کے لئے کس نے زور دیا تھا اسی طرح یہ حقیقت بھی متنازع رہی کہ انہیں بند کرانے کے لئے کس نے کوششوں کا آغاز کیا تھا۔

ابتدائی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے آرمی چیف کی پرزور سفارش پر چینلز کو بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ کابینہ کے ارکان نے فیصلے کا سہرا وزیراعظم کے سر باندھنے کی کوشش کی۔

دی نیوز نے چیئرمین پیمرا ابصار عالم سے ان کا موقف جاننے کےلئے رابطہ کیا۔ ان سے جب بھی مذکورہ بالا واقعات کی صحت کے حوالے سے تصدیق یا تردید کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے ہر مرتبہ کنی کترانے کی کوشش کی۔ بعد میں انہیں ٹیکسٹ پیغامات بھی بھیجے گئے جن کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ وہ اس نمائندے کے سوال کرنے کے حق کا احترام کرتے ہیں اور جواب نہ دینا ان کا حق ہے۔

ان کے پیغام میں درج تھا کہ ’’بطور شہری، بطور چیئرمین پیمرا اور بطور صحافی، آپ نے جو سوالات پوچھے ہیں ان میں سے ہر ایک کا میرے پاس جواب ہے۔ بطور صحافی میں آپ کے ایک پبلک سیکٹر کی تنظیم کے سربراہ سے سوالات پوچھنے کے حق کا احترام کرتا ہوں۔ تاہم اس روز جو کچھ ہوا اس کے بنیادی حصے کے طور پر میرا خیال ہے کہ مجھے اس مرحلے پر اس مسئلے پر کچھ نہیں بولنا چاہیے‘‘۔

نوٹ: یہ رپورٹ 30 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :