Time 01 دسمبر ، 2017
بلاگ

پشاور پولیس کا نیا روپ

پاکستان میں دہشت گردوں کی تابڑ توڑ کارروائیوں کے نتیجے میں انہیں پسپا کرنے کے لیے عموماً پاک فوج اور پیرا ملٹری فورسز کا کردار دیکھنے میں آیا ہے اور اس حوالے سے پولیس کے کردار کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسی لیے پاکستان کی پولیس کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے کہ پولیس فلموں کی طرح ہمیشہ واقعہ ہونے کے بعد پہنچتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں صوبوں کی پولیس کو کسی نہ کسی حوالے سے شدید عوامی تنقید کا سامنا رہتا ہے، رشوت ستانی، جانبداری، سیاسی دباؤ، پیشہ ورانہ مصلحتیں، یہ وہ تمام وجوہات ہیں جنہوں نے انتظامی آئینے میں پولیس کے کردار کو ہمیشہ دھندلا کر رکھا۔

ملک میں انصاف کے ناقص نظام اور انصاف کی عدم فراہمی میں پولیس کا بنیادی کردار ہے، ایف آئی آر سے لے کر تفتیش تک کی قانونی موشگافیوں کی گتھی پولیس کو سلجھانا ہوتی ہے اور یہی بنیادی وجہ ہوتی ہے جب پولیس مصلحتوں کا شکار ہوکر سائلین کو انصاف کے لیے دھکے کھانے پر مجبور کردیتی ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے قطع نظر اگر ہم اس صوبے کی بات کریں جہاں پہلی بار کسی نئی جماعت کو حکومت ملی وہاں حکومتی جماعت کے سربراہ عمران خان نے شروع سے ہی پولیس کا قبلہ درست کرنے پر زور دیا۔

خیبرپختونخوا میں حکومت کے آغاز سے ہی عمران خان اپنی ہر تقریر اور بیان میں پولیس کو صحیح کرنے کی بات کرتے رہے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں جس کا عملی ثبوت جمعہ کے روز زرعی ڈائریکٹوریٹ پر ہونے والے حملے میں پولیس کی برق رفتار کارروائی کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔

پشاور میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملہ جمعہ کی علی الصبح کیا گیا اور یہ حملہ اے پی ایس طرز کا تھا جہاں دہشت گردوں نے ایک بار پھر طالب علموں کو نشانے پر رکھنا چاہا۔

شاید دہشت گردوں نے سوچا کہ پاکستان میں ربیع الاول کی وجہ سے تمام ادارے اسی مناسبت سے سیکیورٹی معاملات دیکھنے میں مصروف ہوں گے تو کیوں نہ موقعے کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کیا جائے لیکن ان دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے خیبرپختونخوا پولیس نے اتنی تیزی سے جواب دیا کہ دیکھنے والے پولیس کی کارکردگی کو سراہے بغیر نہیں رہ سکے۔

پشاور حملے کے بعد آپریشن میں ویسے تو پاک فوج کے جوانوں نے بھی حصہ لیا لیکن بروقت ایکشن لینے میں خیبرپختوںخوا پولیس کا کوئی ثانی نہیں تھا اور اس تمام کارروائی میں سب سے زیادہ نمایاں ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان رہے جو خود اپنے جوانوں کے ساتھ سینہ سپر ہوکر حملہ آوروں کی گولیوں کا سامنا کرتے رہے اور انہیں دندان شکن جواب دیا۔

پولیس کی یونیفارم کی بجائے ٹی شرٹ اور ٹراؤزر زیب تن کیے ایس ایس پی لیول کے افسر کو اس طرح دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے دیکھ کر عوام نے بھی اپنی فورسز کی بھرپور تعریف کی اور سوشل میڈیا پر اس جانبازی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

عمران خان خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی اور اس محکمے کو بہتر بنانے کے دعوے کرتے ہیں جو کسی حد تک درست ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے خیبرپختونخوا کے عوام کا پولیس پر اعتماد بڑھا ہے۔

حال ہی میں جنگ، جیونیوز اور پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ خیبرپختونخوا کے عوام فوج کے بعد سب سے زیادہ پولیس پر اعتماد کرتے ہیں، صوبے کے 72 فیصد لوگوں نے پولیس پر اعتماد ظاہر کیا۔

عوامی سطح پر پولیس پر اس طرح کا اعتماد اس ادارے کی بہتر ہوتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے بلین ٹرین منصوبے سمیت تمام منصوبے اپنی جگہ لیکن صوبے کے عوام کا پولیس پر یہ اعتماد اس بات کو ظاہر کرتا ہےکہ عمران خان اپنے صوبے میں پولیس کو درست سمت میں لانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔

چیرمین پی ٹی آئی دوسروں صوبوں کی پولیس پر شدید تنقید کرتے ہیں جن میں خاص طور پر پنجاب پولیس شامل ہے، اگر ہم سندھ پولیس کی بات کریں تو اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

 کراچی سے لے کر اندرون سندھ کے تمام شہروں میں پولیس انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، کچھ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور بچی کچی کسر سیاسی مداخلت نے پوری کردی ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس کا اس نہج پر کے پی کے پولیس سے موازنہ کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ان صوبوں کی حکومتیں بھی پولیس کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی بجائے غیر جانبدار بنانے پر توجہ دیں تو عوام کیوں نہ اپنے اداروں اور فورسز کی تعریف کریں۔

لیکن بدقسمتی ہے کہ پولیس کو زیادہ تر سیاسی مقاصد اور انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی مثالیں آئے روز میڈیا کے ذریعے دیکھنے میں آتی ہے۔

اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو اپنا ملازم بنانے کی بجائے ان کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے تاکہ ہر ادارہ اپنے شعبے میں بہترین کارکردگی دکھائی اور عوام کا ان پر اعتماد بحال ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔