05 دسمبر ، 2017
پاکستان کی بے لگام سیاسی افراتفری اور دیگر چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ملک کی دو بڑی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین ہم آہنگی بتدریج آگے بڑھ رہی ہے اور دونوں جماعتیں جمہوری تسلسل برقرار رکھنے کے لئے تعاون پر آمادہ ہیں۔
حالیہ دنوں میں دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان قبل ازوقت انتخابات کرانے کی تجویز پر بات چیت چل رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سینٹ سے حلقہ بندیوں کا آئینی بل منظور کرانے پر دونوں جماعتیں رضا مند ہوگئی ہیں، سینٹ اجلاس 11 دسمبر سے شروع ہونے والا ہے اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ سینٹ کے آئندہ اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرالیا جائے گا۔
سینٹ کے گزشتہ دو اجلاسوں میں حکمران جماعت کو اپنے ہی ممبران کی عدم موجودگی کے باعث شدید سیاسی ہزیمت کا سامنا رہا ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کی دعویدار حکمران جماعت قومی اسمبلی سے بھی صرف 4 ووٹوں کی عددی اکثریت سے آئینی بل پاس کراسکی تھی۔
اس وقت حکمران جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کی تعداد 188 ہے جبکہ اتحادی جماعتوں جے یو آئی 13، مسلم لیگ (ف) 5، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی 3، نیشنل پی پی 2 ، پاکستان مسلم لیگ ضیاء ایک ، آل پاکستان مسلم لیگ (مشرف) ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی ایک، نیشنل پارٹی ایک ، عوامی جمہوری اتحاد ایک کے ارکان 216 کی تعداد میں ایوان میں موجود ہیں۔
فاٹا کے 6 ارکان حکومت کے ساتھ ہیں یہ تعداد 222 ہوجاتی ہے لیکن حالیہ آئینی بل میں حکومت کو پیپلز پارٹی ایم کیو ایم، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، شیر پاؤ سمیت تمام اپوزیشن کو منانا پڑا تب کہیں جاکر محض 4 اضافی ووٹوں سے آئینی ترمیم منظور ہوسکی۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے 47، پی ٹی آئی کے 34، ایم کیو ایم کے 19 اور اے این پی کے 2، جماعت اسلامی کے 3 ارکان کو شمار کرلیا جائے تو 105 اضافی ووٹ بنتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں یہ بالکل واضح ہے کہ حکومت کی کشتی نت نئے منجدھاروں میں گھری جارہی ہے، تحریک لبیک کے دھرنے کے تناظر میں حکمران پارٹی کے اندر ایک اور علم بغاوت بلند ہوچکا جبکہ ریاض پیرزادہ گروپ کی بغاوت پہلے ہی عیاں ہے۔
ریاض پیرزادہ سمیت کم و بیش 4 ایسے وفاقی وزیر ہیں جو اپنی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں، ان حالات میں جسٹس (ر) وجیہ الدین، محمد میاں سومرو سمیت کئی امیدواروں کے نام بھی زیر گردش ہیں جبکہ اگر سینٹ سے حلقہ بندیوں کا آئینی بل منظور نہ ہوا تو آنے والے انتخابات اور جمہوری حکومت کے تسلسل پر ایک سوالیہ نشان لٹک جائے گا۔
ایسے گھمبیر حالات سے نکلنے کا واحد راستہ سینٹ سے آئینی بل کی منظوری ہے جس کے عوض حزب اختلاف قبل ازوقت انتخابات چاہتی ہے۔
حکمران جماعت کو باور کرایا جاچکا ہے کہ وہ سینٹ انتخابات کے اشتیاق میں سارے نظام ہی کو داؤ پر مت لگائے اور سینٹ انتخابات کے لئے عوام کے تازہ منڈیٹ پر انحصار کرے۔
اہم پہلو یہ ہے کہ اگر جنوری میں اسمبلی پرائم منسٹر کی ایڈوائس پر تحلیل ہوتی ہے تو الیکشن 90 روز میں ہوں گے اور اگر مدت میعاد کی تکمیل پر اسمبلی ختم ہوتی ہے تو الیکشن 60 روز کے اندر کرانا لازمی آئینی تقاضا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 224 کی شق (1) اور شق (2) میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر موجود ہے ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کو انتخابی حلقہ بندیوں کے لئے تین چار ماہ کا مطلوبہ وقت مل جائے گا اور نگران حکومت کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جاسکے گا۔