Time 06 دسمبر ، 2017
بلاگ

سب 'زیرو' ہے!

گلے میں روٹیاں، سینا کوبی، ہائے ہائے کے نعرے، سڑکوں پر جلتے ٹائروں کا دھواں اور توڑ پھوڑ، یہ کسی ہڑتال کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی کی منظر کشی نہیں بلکہ ملک میں سالوں سے جاری لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کی کہانی ہے۔

سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی مطلق العنان حکومت کے خاتمے کے بعد جب  عنان اقتدار پیپلزپارٹی کے ہاتھ آئی تو اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے روایتی سیاستدانوں کی طرح دعوے کیے۔

لیکن جوں جوں جیالی حکومت کا وقت گزرتا گیا ملک کی دگرگوں ہوتی صورتحال مزید بھیانک شکل اختیار کرگئی، اہم محکموں میں کرپشن اسکینڈل اور دیگر انتظامی معاملات میں بے قاعدگیاں سامنے آئیں لیکن جیسے تیسے پیپلزپارٹی نے بالآخر ملکی تاریخ میں پہلی بار 5 سالہ جمہوری حکومت مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کر ہی لیا۔

پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کیے گئے جو بعد میں خود ریاست کے گلے کی ہڈی بن گئے، جسے اب نہ نگلا جا رہا ہے اور نہ ہی اگلا جا رہا ہے۔

اُس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے لوڈشیڈنگ کے جن کو قابو کرنے کے لیے رینٹل پاور یعنی کرائے کے بجلی گھر منگوائے جو لوڈشیڈنگ تو نہ ختم نہ کرپائے لیکن پاکستان کو کروڑوں کا نقصان ضرور پہنچا گئے۔

عالمی عدالت میں رینٹل پاور پراجیکٹ کو لے جاکر غیر ملکی کمپنی نے پاکستان پر ہرجانہ کردیا اور اس طرح پاکستان کو اربوں روپے کا ٹیکا لگادیا۔

پیپلزپارٹی کی حکومت جب اپنے اختتام کو پہنچی تو میاں نواز شریف کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا جس کے بعد وزارت عظمیٰ کی گدی سنبھالتے ہی نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کو اپنی ترجیحی بنیادوں پر رکھا اور جس کے لیے انہوں نے شب و روز محنت بھی کی۔

لیکن میاں نواز شریف کے عملی کام اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ بتانے میں کافی فرق نظر آیا، جس کی وجہ سے چھوٹے میاں صاحب کو اکثر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

نوازشریف اکثر تقاریب میں شہباز شریف کی 'لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ' آگے بڑھا دیتے تھے لیکن بہرحال وہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر قائم رہے۔

اس تمام دور میں مبینہ انتخابی دھاندلی پر پی ٹی آئی کا دھرنا، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عوامی تحریک کا دھرنا اور پھر نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے تابوت میں آخری کیل یعنی پاناما کیس سامنے آگیا جس نے بالآخر میاں صاحب کے اقتدار کا ستون زمین بوس کردیا۔

اب چونکہ حکومت اپنے جمہوری پانچ سال مکمل کرنے کے قریب ہے، اس موقع پر حکومت نے ملک بھر میں 'زیرو لوڈشیڈنگ' کا دعویٰ بھی کر ڈالا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ ایسے موقع پر کیا گیا جب ملک بھر میں موسم سرما دستک دے چکا ہے اور بجلی کی طلب کم ہوگئی ہے۔

حکومتی وزیر دعوے کررہے ہیں کہ اس حکومت نے 10 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی ہے، ان کے مطابق ملک میں اس وقت 2700 میگاواٹ اضافی بجلی ہے جو ان کا ایک تاریخی کارنامہ ہے، لیکن بظاہر حکومت کے 'زیرو لوڈشیڈنگ' کے دعوے بھی 'زیرو' ہی نظر آرہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر حکومت کے ان دعوؤں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ غصے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے، دوسری جانب اپوزیشن نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے اور اس سے بڑھ کر کراچی کے شہریوں نے اس دعوے کو کچھ سنجیدہ نہیں لیا ہے۔

کراچی کے بیشتر علاقوں میں آج بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی 'کے الیکٹرک' نے شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے جبکہ اوور بلنگ اور  وولٹیج  میں اتار چڑھاؤ بھی ایک عام سی بات ہے، جس سے نقصان شہریوں کو الیکٹرانک مصنوعات کی خرابی کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی کے اس مسئلے پر دھیان دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتی، سندھ حکومت کو آئی جی سندھ کو ہٹانے کے لیے نت نئے حربوں سے فرصت نہیں مل رہی اور دوسری جانب حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے پاس میاں نوازشریف کے دفاع کے علاوہ کوئی کام نہیں جبکہ اہم وزراء بھی مشکلات کے گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں۔

4 سال تک وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار لندن میں موجود ہیں جہاں ان کے دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہے۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق سابق وزیر خزانہ کی دل کی شریان 45 فیصد سکڑ گئی ہے اور ملک میں لوڈشیڈنگ بھی ایسے وقت میں ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جب عوام سردی سے سکڑ رہی ہے۔

دوسری جانب وزیر قانون زاہد حامد ختم نبوت کے معاملے پر استعفیٰ دے چکے ہیں جب کہ پنجاب کے وزیر قانون بھی آج کل پیروں کے رحم و کرم پر چل رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک کے بعد ایک غلطی کرکے مسائل کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور 'سب اچھا ہے' کی گردان کرنے والے اب اپنی ہی باتوں میں خود الجھتے جارہے ہیں۔

اسی طرح 'زیرو لوڈشیڈنگ' کے دعوے اور معیشت کے بارے میں 'سب اچھا ہے' کے راگ نے حکومت کو آگے کنواں اور پیچھے کھائی کی صورتحال پر لا کھڑا کیا ہے، اگر حکومت ان 5 سالوں میں لوڈشیڈنگ مستقل طور پر ختم نہ کرپائی تو پھر آگے کنواں ہے اور اگر یہ لوڈشیڈنگ صرف موسم سرما میں ہی ختم ہوئی ہے تو پھر پیچھے کھائی میں گرنے سے (ن) لیگ کو کوئی نہیں بچا سکتا۔

اس موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر مملکت عابد شیر علی اور اویس لغاری بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے زمینی حقائق کو سامنے رکھیں، 'زیرو لوڈ شیڈنگ' کا دعویٰ کہنے میں بہت خوشنما لگتا ہے، لیکن عوام اتنے بے وقوف نہیں، بے شک حکومت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں لیکن اس وقت 'زیرو، زیرو' کی باتوں سے لگتا ہےکہ سب ہی کچھ 'زیرو'ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔