07 دسمبر ، 2017
لاہورہائیکورٹ نے جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ شائع نہ کرنے کی حکومتی درخواست مسترد کردی اور اس کے کئی گھنٹے بعد شائع ہونے والی رپورٹ کے باعث وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کی طاقت ور صوبائی حکومت اخلاقی اور قانونی میدان میں پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوگئی۔
ان کی حکومت کو 2014 میں ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے 14کارکن قتل کرنے کا ذمہ دار قراردیاگیا۔ اب پنجاب حکومت کے پاس کون سے راستے ہیں؟ یہ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب کچھ رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف ایک ممکنہ جانشین کے طور پر اپنے بھائی شہباز شریف کی جانب دیکھ رہے ہیں اور پی ایم ایل (ن) اگلے انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔
یہ ایک ایسے وقت میں بھی آئی ہے جب دونوں وفاق اور پنجاب حکومت ابھی تک فیض آباد دھرنے کے نقصان سے باہر نہیں نکلے۔ لہٰذا ماڈل ٹاؤن رپورٹ کا اثر یہ ہوگا کہ ایک بار پھر ڈاکٹر طاہرالقادری اور دیگر اپوزیشن جماعتیں ذمہ داران کیخلاف کارروائی کےلیے سرگرم ہوجائیں گی۔
اگرچہ دیر سہی لیکن پنجاب حکومت نے صحیح کام کیا کہ سپریم کورٹ جانے کی بجائے رپورٹ شائع کردی۔ اگر یہ رپورٹ دو سال قبل شائع ہوئی ہوتی توحکومت کو اس طرح کے حالات کاسامنا نہیں ہوسکتاتھا جس طرح اب ہے۔
رپورٹ ایک ایسے وقت آئی ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ایم ایل (ن) سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کےبعد اپنے سیاسی کیرئیرکے مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں اور غالباً جی ٹی روڈ مارچ کے بعد سے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیاہے۔
لہٰذا ٹربیونل کی رپورٹ نے پی ایم ایل اور نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کیاہے۔ اب شہباز شریف صرف یہ کرسکتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کے تمام براہِ راست ذمہ داران کو برطرف کردیں اس میں رانا ثناءاللہ بھی شامل ہیں جنپوں نےاس ’مشہورمیٹنگ‘ کی صدارت کی جس نے 2014 میں یہ فیصلہ کیاتھا۔
اگرچہ ’آپریشن‘ کاحکم دینے یا فیصلے کرنے کیلئے انہیں براہِ راست ذمہ دار قرارنہیں دیاگیا، انہیں ‘ڈِس انگیجمنٹ‘ سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بارے میں ٹربیونل نے اب کہاہے کہ انہوں نے اس کا حکم نہیں دیاتھا۔
دوسری جانب ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستان عوامی تحریک کو ٹربیونل پر اعتماد نہ کرنے پر افسوس کرنا چاہیئے اور اب وہ اِسے ایک تاریخی فیصلہ قراردےرہے ہیں۔ مکمل رپورٹ پڑھنے کے بعد مجھے رپورٹ میں ایک مضبوط ترین اور ایک کمزور ترین پیراگراف ملے۔
جسٹس نقوی نے یہ سب اپنی آبزرویشن میں کہا ہے،’’ کریمنالوجی میں شواہد کے تجزیےکےلیے یہ ایک سنہری اصول ہےکہ کوئی شخص جھوٹ بول سکتاہے لیکن حالات جھوٹ نہیں بولتے۔ خونی کھیل کے حقائق اور حالات سے واضح طور پر ظاہر ہوتاہے کہ پولیس افسران نے بڑھ چڑھ کر قتلِ عام میں حصہ لیا۔ معاملے میں پنجاب کی تمام اتھارٹیز کی پوشیدہ بے حسی اور غفلت کے باعث ان کی بےگناہی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
اس میں مزید کہاگیاہے کہ، ’’ پولیس نے وہی کیا جس کے لیے انہیں وہاں بھیجا اور جمع کیاگیاتھا۔‘‘ لیکن میں حیران ہوں کہ ٹربیونل نے یہ مضبوط آبزرویشن دینےکےبعد اس طرح نتیجہ کیوں نکالا۔ ’’مندرجہ بالا حقائق اور حالات کو مدِنظررکھتے ہوئے اس رپورٹ کو پڑھنےوالا بآسانی منہاج القرآن کے واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرسکتاہے۔‘‘ یہ رپورٹ میں موجود کمزور ربط کے باعث ہے۔ ٹربیونل نے ’ٹرمز آف ریفرنس‘ کے مطابق کام کیا، جس کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں منہاج القران اکیڈمی اور سیکریٹریٹ کے واقعے کی تحقیقات حقائق اور حالات کے مطابق کی جائیں۔
لہٰذا ٹربیونل نے واضح طور پر اُن حقائق اورحالات کا پتہ لگایا جن کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔ ٹرمز آر ریفرینس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ براہِ راست ذمہ داروں کا تعین کیاجائے۔ قانونی راستے کی پیروی کرنی چاہیئےلیکن رپورٹ میں واضح طور ذکر کیاگیاہے کہ ماڈل ٹاؤن میں لوگوں کا قتل کس وجہ سےہوا۔ لیکن پی اے ٹی کے کارکنوں یا منہاج القران سیکریٹریٹ کی جانب سے فائرنگ کی متضاد اطلاعات سے ایک بار پھر ہماری انٹلیجنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی مکمل کمی ظاہر ہوتی ہے حتیٰ کے اس طرح کے ایک حساس معاملے پر بھی۔
حتیٰ کے بعض اوقات ان کے آپسی اختلافات بھی سامنے آتے ہیں۔ ٹربیونل کو ان ایجنسیوں کی رپورٹس کا نوٹس لینا چاہیئےتھا۔ جن حالات کے باعث لوگوں کو قتل کیاگیا ان سے واضح طور پرظاہر ہوتاہے کہ پنجاب یا پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے طاہر القادری اور عمران خان کے لونگ مارچ کو روکنے کا مکمل ذہن بنایاتھا۔
رپورٹ واقعاتی شواہد اور رانا ثناءاللہ کی زیرصدارت میٹنگ جس میں منہاج القران کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ ہوا، کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔ عموماً ٹربیونل یا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹیں تجاویز اور سفاشات پرختم ہوتی ہیں۔ حقائق کی روشنی میں یہ ذمہ داروں کا تعین بھی کرتی ہیں۔
سلیم شہزاد اور میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل کی، یہ دو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹیں میں نے پڑھی ہیں۔ کوئی بھی رپورٹ اس طرح ختم نہیں ہوتی جس طرح یہ ہوئی اور وہ بھی دو مضبوط آبزرویشن کے بعد۔ یہ کہنے کے بعد اس کایہ مطلب نہیں کہ رپورٹ ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، اور اِسے پہلےشائع نہ کرنے کیلئےرانا ثنا اللہ کے دفاع کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔
درحقیقت شہباز شریف پر2014 میں اس طرح کا پریشرنہیں ہوگا جس طرح کا اب ہے کہ وہ رانا ثناءاللہ اور اس مشہور میٹنگ میں موجود افراد کو برطرف کریں گے جس میں آپریشن کا فیصلہ کیاگیا اور پاکستان عوامی تحریک کے 14کارکن مارے گئے اور پولیس اہلکاروں سمیت کئی زخمی ہوگئے۔ حتیٰ کہ اگر 138 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو سائیڈ پر بھی رکھ دیاجائے اور اس موقف کی حمایت کی جائے جو انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اختیار کیا کہ انھیں فیصلے کا علم نہیں تھا، تو انھوں نے اُن کی مرضی کے بغیر اس طرح کا خطرناک کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔
سینئر صحافی مظہر عباس کا تجزیہ 7 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔